فواد چودھری کا اعتراف

          فواد چودھری سے ہمیں کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے، اُن کی لبرل سیکولر سوچ اور رویوں سے اختلاف ہے، فلسفی کالم نگارجنابِ شاہنواز فاروقی انھیں جنابِ عمران خان کا ’’نفسِ اَمّارہ ‘‘ کہتے ہیں، اگرچہ پی ٹی آئی کے اثاثے میں کئی ’’نُفُوْسِ اَمَّارَہْ ‘‘ ہیں، چودھری صاحب اس سلسلے میں منفرد نہیں ہیں۔تاہم پی ٹی آئی کے اثاثے میں وہ اُن چند لوگوں میں سے ہیں جو سیاسی ذہن رکھتے ہیں، انھوں نے یہ ٹویٹ کیا ہے:

           ’’تحریک انصاف کی بھی غلطیاں ہیں کہ صورتحال اس نہج پر پہنچی ،لیکن کیا پاکستان کو اگلے چالیس سال زرداری اور شریف چلائیں گے اور کیا ان سالوں کی طرح اگلی چار دھایاں بھی ضائع کر دی جائیں، کیا آپ یہ وراثت چھوڑ کر جانا چاہیں گے، لوگوں کے غصے کو کم نہ سمجھیں ،لوگ توقع سے زیادہ ناراض ہیں،(29مئی(‘‘۔

          اس سے پہلے تحریکِ انصاف والے معاذ اللہ!اپنے آپ کو ہر خطااور ہر غلطی سے مبرّا سمجھتے تھے اور اپنے مخالفین کو مجسَّم خطا سمجھتے تھے اور یہی فلسفہ انھوں نے سوشل میڈیا کی کمین گاہوں میں براجماں اپنے ’’سوشل میڈیا مجاہدین‘‘ کے ذہنوں میںاتنا راسخ کیا تھا کہ وہ اس کے برعکس کوئی بات سوچنے ، سننے اور ماننے کے لیے تیارہی نہیں تھے ۔ میرے علم میں پوری پی ٹی آئی اسکواڈ میں فواد چودھری کا یہ پہلا اعترافِ خطا ہے ۔ توبہ کے مراحل میں بھی پہلا مرحلہ ’’اعترافِ گناہ‘‘ ہے ، حدیث پاک میں ہے: ’’بے شک بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے،(صحیح البخاری:4141)‘‘۔اس کا دوسرا درجہ اپنی خطا پر ندامت ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’(اللہ تعالیٰ کے حضور گناہ پر)ندامت ہی توبہ ہے،(سنن ابن ماجہ: 4252)‘‘۔ اس کے بعد شریعت کے مقررہ طریقوں پر غلطی کا ازالہ اور تلافی ہے، حدیث پاک میں ہے:’’رسول اللہﷺنے فرمایا:’’کیا تم جانتے ہوکہ مُفلس کون ہے، صحابہ نے عرض کی:ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم (ودینار)اوردنیاوی ساز و سامان نہ ہو، آپ ﷺنے فرمایا:میری امت میں مُفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے نامہ اعمال میں نمازیں ، روزے اور زکوٰۃ سب کچھ ہوگا ،لیکن (اس کے ساتھ ساتھ)اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر(بدکاری کی)تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال (ناحق)کھایا ہوگا، کسی کا(ناحق)خون بہایا ہوگا، کسی کو (ظلماً)مارا ہوگا، توان سب حق داروں کو اُن کے حقوق کے بدلے میں اس کی نیکیاں دے دی جائیںگی۔ پھر جب دوسروں کے حقوق کے بدلے میں اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی، تواُن کے گناہ اُس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا،(صحیح مسلم:2581)‘‘۔ الغرض اگر اس دنیا میں تلافی نہ ہوئی تو آخرت میں ضرورہوگی۔

          ہماری سیاست میں گالی گلوچ کا شعار تحریکِ انصاف نے متعارف کرایا ہے، اس کی بابت رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’جس نے اسلام میں کوئی نیک کام جاری کیا اور اس کے بعد کسی نے اس پر عمل کیا ، تو اُن عاملین کے مجموعی اجر کے برابراجر اس نیک کام کی بنیاد ڈالنے والے کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا ،جبکہ اُن عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کی بنیاد ڈالی اور بعد میں لوگوں نے اس پر عمل کیا تو ہر عامل کو اپنا گناہ ملے گا اور اُن عاملین کے مجموعی گناہ کے برابر گناہ اس برائی کی بنیاد ڈالنے والے کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا،جبکہ اُن عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، (صحیح مسلم:107)‘‘۔ اب سب اہلِ سیاست اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ سمجھ کر اپنا جائزہ لیں کہ سیاست میں دوسروں کوگالی گلوچ، توہین ، تذلیل ، تمسخر اور اہانت کا شعار کس نے رائج کیا ہے۔

          کاش کہ فواد چودھری کا یہ پیغام یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر مورچہ زَن اُن کے ’’مجاہدین‘‘ تک پہنچ جائے ، تو اُن کی قلم اور زبان سے بہت لوگوں کی عزتیں محفوظ ہوجائیں ۔لیکن اس پیغام میں فواد چودھری صاحب نے اپنی جماعت کے اندر اصلاح کا عمل جاری رکھنے کے بجائے ایک بار پھر مقتدر ہ کو مدد کے لیے پکارا ہے، اُن کے الفاظ یہ ہیں:’’کیا پاکستان کو اگلے چالیس سال زرداری اور شریف چلائیں گے اور کیا ان سالوں کی طرح اگلی چار دھایاں بھی ضائع کر دی جائیں، کیا آپ یہ وراثت چھوڑ کر جانا چاہیں گے‘‘۔ ہر ذی شعور جان سکتا ہے کہ اس میں چودھری صاحب کا خطاب کس کی طرف ہے اور کس کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں، یعنی اب بھی وہ بحیثیتِ جماعت اپنی اصلاح کر کے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بدستورمقتدرہ کو مدد کے لیے پکار رہے ہیںاوریہی وجہ ہے کہ خان صاحب بھی سپریم کورٹ اور مقتدرہ کو کبھی دبائو ڈال کر اور کبھی التجا کرکے مدد کے لیے پکارتے ہیں، یعنی اب تک وہ ایک پختہ کار سیاستدان نہیں بنے ، بلکہ بدستورسیاسی ناپختگی کی کیفیت میں ہیں ، یعنی ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا کہ وہ خود پر اور اپنی جماعت پر بھروسا کر کے اپنی حکمتِ عملی مرتب کریں،گویا اُن کے لاشعور میں یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اور مقتدرہ پر لازم ہے کہ ہمہ وقت اُن کے مددگار بنے رہیں۔ رؤف کلاسرہ صاحب نے اپنے کالم ’’اب بانس سے نیچے اتر آئیے!‘‘میں اسی مفہوم کو بیان کیا تھا، پس ضروری ہے کہ اپنی سیاست کو نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے وہ بانس سے نیچے اتر آئیں۔

          اس سے قطعِ نظر کہ خان صاحب کو اقتدار میں لانے کے لیے کچھ غیبی انتظامات بھی کیے گئے تھے ، اگر اقتدار میں آنے کے بعد انھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ،وہ اپنی سیاسی حکمتِ عملی خود ترتیب دیتے ، حزبِ اختلاف کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرتے تو تحریکِ عدمِ اعتماد کی نوبت نہ آتی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو سیاسی تجربات نے ہی میثاقِ جمہوریت پر آمادہ کیا تھا۔لیکن سینیٹ چیئرمین کے انتخاب ،اُن کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کی ناکامی ، ہر مرتبہ بجٹ پاس ہونے کے مراحل اور بعض مخصوص قوانین کی پارلیمنٹ میں کسی بحث وتمحیص کے بغیر منظوری میں غیبی مدد نے انھیں ایک عملی سیاستدان بننے کے قابل ہی نہ چھوڑا۔ عملی سیاستدان کبھی بھی اپنے مخالفین کے ساتھ بامعنی مکالمے سے انکار نہیں کرتا، وہ یہ نہیں کہتا :’’نہ میں انھیں دیکھنا پسند کرتا ہوں، نہ ان سے ہاتھ ملانا پسند کرتا ہوں، نہ ان سے مکالمہ کروں گا‘‘۔ نیز وہ عدالت اور اداروں کا کام اُن پر چھوڑتا ہے ، نہ ان کو ہدایات دیتا ہے ،نہ اُن سے فرمائشیں کرتا ہے ، نہ اُن سے گلے کرتا ہے، وہ تحمل سے کام لیتا ہے ، قانونی عمل کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا انتظار کرتا ہے ، بے صبرا نہیں ہوتا ، بے قرار نہیں ہوتا اورمعاذ اللہ!کبھی خدائی لہجے میں بات نہیں کرتا ،پس کیا کیجیے! انسانی فطرت میں عُجلت پسندی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے، عنقریب میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائوں گا ،سو تم( نزولِ عذاب وآیات کے لیے )مجھ سے جلد ی نہ کرو، (الانبیاء:37)‘‘۔

           آڈیو کلپ میں’’پیچ اپ ‘‘کی خواہش کا اظہار انہوں نے اُس وقت کیا جب کھیل ہاتھ سے نکل چکا تھا ، اگر بروقت کرلیا ہوتا تویقینا کامیابی ملتی اور امریکی سازش وغیرہ کے بیانیے کی ضرورت پیش نہ آتی، امریکی تو ہمیشہ پاکستان کی ہر حکومت سے خدمت بھی لیتے رہے ہیں اور نالاں بھی رہے ہیں، شکایتیں بھی کرتے رہے ہیں،لیکن ہرحکومت کی امریکہ کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم رہی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، منگل کو انھوں نے رابطے کا انکار کیا ہے، لیکن اس انداز میں کہ تاویل کی گنجائش ہے۔

           نیزاس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ پارلیمانی جمہوریت انتخابی حلقوں  پر مشتمل ہوتی ہے ، بڑے شہروں میں چند بڑے جلسے انتخابی جیت کی ضمانت نہیں بن سکتے، ورنہ آج کل سب سے بڑے جلسے تحریک لبیک پاکستان کے ہیں اور ان کے کارکن سب سے زیادہ جانثار اورجذباتی طور پر اپنی قیادت کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہیں  اور اُن کے جلسوں کے اخراجات بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کم از کم دس گنا کم ہوں گے ، لیکن اس فَضا کو انتخابی جیت میں بدلنے کا مرحلہ ابھی دور ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا کو نہایت مہارت کے ساتھ استعمال کرکے اور دوسروں کی توہین اور تذلیل کر کے اپنے نفسِ امّارہ کوتسکین توپہنچائی جاسکتی ہے، لیکن اس سے انتخابات نہیں جیتے جاسکتے اور پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے اسی حقیقت کا ادراک مشکل ہورہا ہے، کیونکہ اُن کے دل ودماغ میں یہ بات ثبت ہوچکی ہے کہ 2018کی انتخابی کامیابی میں سوشل میڈیا کا بڑا دخل تھا، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا ، اس کے اسباب اور تھے۔

           خان صاحب بدستور غیر محتاط انداز اختیار کیے ہوئے ہیں، مثلاً: ’’اب ہم تیاری کے ساتھ آئیں گے‘‘، کوئی پوچھے:’’ تیاری سے آپ کی مراد کیا ہے‘‘، کیا مسلّح ہوکر سلامتی کے اداروں کے ساتھ جنگ کرنی ہے اور وہ گزشتہ ریلی میں اسلحہ لانے کا اعتراف بھی کرچکے ہیں، یہ انتہائی خوفناک علامت ہے ۔ اُن کا کہنا یہ ہے :’’ہمارے دور میں بھی ریلیاں نکلیں‘‘، لیکن وہ ریلیاں انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ قواعد وضوابط کی پابند رہی ہیں،حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن کی ریلی نے بھی قانونی حدود کو نہیں توڑا، لیکن جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی سے یہ ضمانت مانگی تو وہ دینے پر تیار نہ ہوئے، پھر سپریم کورٹ نے ایچ نائن پارک میں جلسہ کرنے یا ریلی کرنے کی اجازت دی اور انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں کہ انہیں سہولتیں فراہم کریں، تو سپریم کورٹ کی ہدایات کو نظر انداز کرکے ڈی چوک کی جانب پیش قدمی کا اعلان کردیا گیا ،اس سے ایک طرح سے عدالتِ عظمیٰ کو شرمساری وناگواری سے دوچار کیا۔ اصولِ عدل یہ ہے کہ عدالت کسی وقوعے کے بعد قانون کی خلاف ورزی پر جواب طلبی کرسکتی ہے ، لیکن پی ٹی آئی کے معاملے میں تو عدالت نے خود آگے بڑھ کر پی ٹی آئی کی مدد کی ، یعنی Preemptکیا، ایسا کسی اور سیاسی جماعت کے لیے نہیں ہوا، لیکن اب بھی ان کو گلہ ہے۔نیز پی ٹی آئی کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ناپسندیدہ ہونے کے باوجود ’’تحریکِ عدمِ اعتماد ‘‘ ایک آئینی عمل ہے ، یہ دستور کے دائرے کے اندر ہے، یہ ماورائے آئین وقانون کوئی چیز نہیں ہے کہ آپ اس کے اسباب واشنگٹن یا ماسکو میں تلاش کریں۔

View : 910

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.