دل کی بات

علامہ اقبال نے کہا ہے :     ہزار خوف ہو لیکن، زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

                وزیر اعظم جناب عمران خان اپنے جذبات کے اظہار میں بعض اوقات مصلحت کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اورنتائج کی پروا کیے بغیرجو جی میں آئے کہہ دیتے ہیں، چنانچہ انہوں نے 29جنوری کو اسلام آباد میں پانی کے حوالے سے ڈاکومنٹری کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا،اس کا خلاصہ یہ ہے:

’’ہم چین گئے تو وہاں ہمیں دس اور بیس سال کے منصوبے دکھائے گئے، یعنی انھیں معلوم ہے کہ آئندہ دس بیس سال میں انہوں نے کیا کرنا ہے، بدقسمتی سے ہمارے جمہوری نظام میں ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں ،حکمران مختصر مدتی منصوبے بناتے ہیں تاکہ وہ پانچ سالہ دورانیے میں مکمل ہوجائیں ،پھر اربوں روپے کے اشتہارات دے کر ان منصوبوںکی مارکیٹنگ کی جائے اور ان کی بنیاد پر آئندہ انتخابات جیتے جائیں،(روزنامہ دنیا: ’’شہ سرخی‘‘ میں شائع شدہ خبرکے متعلقہ حصے کاخلاصہ)‘‘۔الغرض وزیر اعظم دل کی بات زبان پر لے آئے ۔

اقتدار میں آنے سے پہلے وہ سودنوں میںکرپشن کو مٹانے کے دعوے کر تے رہے ، اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اس مدت کو بڑھاکر پہلے چھ ماہ کیااور پھر ایک سال میں تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کے دعوے کرتے رہے ، لیکن اب انہوں نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ایسے دعووں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ،اب وہ کہتے ہیں :’’ میرے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ جسے جلاکر پل بھر میں انقلاب لے آئوں‘‘۔اب وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک میں جوہری تبدیلی لانے کے لیے دیرپا یا مستقل اقتدار چاہیے ، جیساکہ چین میں شی جن پنگ تاحیات صدر ہیں ،انھیں اپنے اقتدار کے زوال کی فکر نہیں ہوتی ، اسی لیے وہ یکسو ہوکر منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ملک کو آگے بڑھاتے ہیں،ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور روس کے صدر ولادی میر پوتن بھی اسی شعار کو اختیار کر رہے ہیں ۔ لیکن جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں ہے،بادشاہت کی بات الگ ہے۔جنابِ وزیر اعظم کی یہ سوچ ایک طرح سے جمہوریت سے مایوسی کی علامت ہے۔وزیرِ اعظم کے مخالفین طعن کرتے ہوئے موجودہ جمہوری سیٹ اپ کوہائی برِڈ سے تعبیر کرتے ہیں۔ہائی برِڈکے معنی ہیں:’’مادہ سے پیدا ہونے والا مخلوط النسل بچہ ‘‘،یعنی وہ موجودہ جمہوری نظام کو حقیقی جمہوریت تسلیم نہیں کرتے، اس لیے وہ اس پر سلیکٹڈ کی پھبتی بھی کستے ہیں۔ ماضی میں ہمارے فوجی آمروں کی خواہش بھی یہی رہی کہ انھیں تاحیات اقتدار کی لذتیں نصیب ہوں، لیکن غالب کے بقول انجام یہ رہا:

ہزاروں خواہشیں ایسی، کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں، لیکن بہت بے آبرو ہو کر، ترے کوچے سے ہم نکلے

دراصل ہمارے عوام ہر نئے صاحبِ اقتدارسے بلند وبالاامیدیںباندھتے ہیں ، امیدیں پوری نہ ہونے پر انھیں مایوسی ہوتی ہے ،جلد اکتاجاتے ہیں اور پھر نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صرف پی ٹی وی تھا، اس وقت ایک لطیفہ مشہورہواتھا:’’ ایک شخص ٹی وی مکینک کے پاس گیا اور کہا:’’میرے ٹی وی میں خرابی ہے، اسے ٹھیک کردو‘‘، مکینک نے ٹی وی چلا کر ہر طرح سے دیکھا، وہ ٹھیک کام کر رہا تھا، اس نے ٹی وی کے مالک سے کہا: ’’یہ تو بالکل ٹھیک ہے، اس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘‘، ٹی وی کے مالک نے جواب دیا: ’’اس کے اسکرین میں بھٹو صاحب پھنس گئے ہیں، انہیں نکال دو‘‘۔ یہ دراصل اس بات پر طنز تھا کہ بھٹو صاحب کی نمود ٹی وی پربہت زیادہ ہورہی ہے ،پھر یہی کثرتِ نمودنفرت کا باعث بنتی ہے۔چودھری پرویز الٰہی نے صدر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کہا تھا :’’ہاں ! ہم دس بار انھیں وردی میں منتخب کریں گے اور پرویز مشرف پر اس بیان سے جو کیفیت طاری ہوئی ہوگی،غالب کا یہ شعر اس کی تصویر ہے :

دیکھنا تقریر کی لذت، کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا، کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

                لیکن نہ تو ماضی کے آمروں کی تاحیات اقتدار کی خواہشیں پوری ہوئیں اور نہ انھیں اقتدار سے باعزت رخصت ہونا نصیب ہوا،اس کے برعکس انجیلا مرکل جمہوری طریقے سے (2005)میں جرمنی کی چانسلر منتخب ہوئیں اور ان کااقتدار 2023کو ختم ہوگا،لیکن انھوں نے جب آئندہ انتخاب کے لیے اپنی پارٹی’’ کرسچین ڈیموکریٹک یونین ‘‘کی قیادت سے دستبرداری کااعلان کیا تو ان کی پارٹی نے چھ منٹ تک اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکرتالیاں بجائیں اور انھیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔جنابِ عمران خان اپنے کرکٹ کیرئیر میں کہا کرتے تھے: ’’کھلاڑی کو اُس وقت ریٹائر ہونا چاہیے ،جب وہ اپنے عروج پر ہوتاکہ اس کی یاد لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ باقی رہے‘‘، کیونکہ جب کوئی کھلاڑی ’’آئوٹ آف فارم‘‘ ہوجائے ،اس کا فن زوال پذیر ہوجائے ، لوگ اُسے دیکھنے سے اکتا جائیں اورآخرِ کاراُسے ٹیم سے باہر کردیا جائے تو پھرلوگوں کے دلوں میں اُس کی وہ محبت باقی نہیں رہتی ۔

                حدیثِ پاک میں ہے:’’سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں :نبی ﷺ نے( میدانِ جنگ میں )ایک شخص کو مشرکوں سے قتال کرتے ہوئے دیکھا، وہ مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا،آپ ﷺ نے فرمایا: جو کسی جہنمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے ۔پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے )مسلسل اُس کا پیچھا کرتا رہا ، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا،سو اُس نے (تکلیف سے بے قرارہوکر) جلدموت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی،وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا ،یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر )دوشانوں کے درمیان سے نکل گئی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے ، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے ،اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہل جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے ، حالانکہ درحقیقت وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا،(بخاری:6493)‘‘۔

                یعنی مدار اس پر ہوتا ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے وقت کسی کی مقبولیت کا عالم کیا ہے، اگر انجامِ کار وہ لوگوں کی نظروں سے گر چکا ہوتو عروج اور مقبولیت کے زمانے کو لوگ بھول جاتے ہیں، اسی لیے رسول اللہ ﷺ   تعلیمِ امت کے لیے حُسنِ عاقبت کی یہ دعا فرمایا کرتے تھے:’’اے اللہ! تمام امور میں ہمارے انجام کو بہترین فرمادے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے پناہ عطا فرما، (مسند امام احمد: 17628)‘‘،شعارِ حکمرانی میں اس کی عملی مثال یہ ہے:

                ’’امام حسن بن علی روایت کرتے ہیں: جب حضرت ابوبکرصدیق کے وصال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ سے فرمایا: وہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے تھے اور وہ پیالہ جس میں ہم خوردونوش کرتے تھے اور وہ چادر جس کو ہم اوڑھتے تھے،لے آئو، کیونکہ ہم ان سے نفع اٹھانے کے اُس وقت تک حق دار تھے ، جب ہم مسلمانوں کے امورِ خلافت انجام دینے میںمشغول تھے، پس جب میری وفات ہوجائے تو (بیت المال کی )یہ چیزیں حضرت عمر کو لوٹادینا، (حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں:)پھر جب ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصال فرمالیا تو میں نے یہ چیزیں (خلیفۂ ثانی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بھیج دیں،ان چیزوں کو دیکھ کرحضرت عمر نے فرمایا: اے ابوبکر! اللہ آپ سے راضی ہوا،آپ نے اپنے جانشینوں کے لیے خلافت کے معاملے کو دشوار بنادیا، (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلطَّبَرَانِیْ:38)‘‘، یعنی دیانت وامانت اوربیت المال کی حفاظت کے اس معیار پر پورا اترنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے، یہ تھانبوی منہاج پر خلافت کا معیار واعتبار۔

                جنابِ وزیر عظم کو اپوزیشن بارہایہ پیش کش کرچکی ہے کہ اتفاقِ رائے سے ایک ’’میثاقِ معیشت ‘‘تیار کیا جائے، یہ میثاق دس بیس سال پر بھی محیط ہوسکتا ہے، اس کو آئین میں تحفظ دیا جاسکتا ہے کہ آئندہ حکومت کوئی بھی آئے ، اُسے اس سے انحراف کی اجازت نہ ہو۔ نیز آمریت اور جمہوریت میں فرق یہی ہے کہ جمہوریت میں ایک دوسرے کی ترجیحات کے لیے گنجائش رکھنی پڑتی ہے۔ہماری دعا ہے کہ ہمارے اہلِ اقتدار جب ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوں ، تو لوگ انھیں محبت سے یاد کریں، وہ قوم کے ہر فرد کے لیے ماں باپ کی طرح سائبان بن کر رہیں اور ان کی رخصت کے وقت لوگ کہیں: ’’ہم یتیم ہوگئے‘‘۔ سابق وزیرِ اعظم جونیجو نے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے لیے ترقیاتی فنڈ کا سلسلہ شروع کیا تھا، یہ بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا، اس سے اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی بھی مستفید ہوتے رہے ، لیکن جنابِ وزیر اعظم یہ سہولت صرف اپنی جماعت کے ارکانِ اسمبلی کو دینا چاہتے ہیں، اس سے اُن حلقوں کے عوام کی حق تلفی ہوگی ، جہاں سے اپوزیشن کے لوگ منتخب ہوئے ہیں، گویا انھیں اپوزیشن کو ووٹ دینے کی سزا دی جارہی ہو، مالی وسائل پارٹی کے نہیں ہوتے، قومی خزانے پر پوری قوم کا حق ہوتا ہے، اس لیے انصاف برتنا چاہیے۔

پس نوشت: ’’امریکی سماج کی شکست وریخت‘‘ کے عنوان سے ہمارے گزشتہ دو کالم طبع ہوئے تو امریکہ سے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دوست نے ہمارے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے ایک مکتوب میں ایک مقامی اخبار’’ برسٹل ہیرلڈ کورئیر‘‘کی اس خبر کا حوالہ دیاہے : ’’کیپیٹل ہل پر بلوے میں’’ ٹامس کولڈویل ‘‘نامی ایک شخص پکڑا گیا جو ایف بی آئی میں ملازم تھا، وہ انتہائی دائیں بازو کی ایک جماعت اور’’حلف یافتگان ‘‘کے حربی گروپ کاسربراہ بھی ہے، اس نے ایک جماعت تیار کی ، پھر کیپیٹل ہل پر بلوے کی قیادت کی، اسے کئی دہائیوں سے گورنمنٹ کے انتہائی نازک خفیہ رازوں تک بھی رسائی حاصل تھی، وہ 2009سے 2010تک ریاستی رازداری کے ایک شعبے کا سربراہ بھی رہ چکا ہے، حکام کا خیال ہے کہ وہ انتہا پسند گروہ کا لیڈر ہے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’خطرے کی بات یہ ہے کہ امریکہ میں شدید اختلافِ رائے کے نتیجے میں اب سیاسی شکست وریخت کا عمل فوج، پولس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچ چکا ہے،الغرض نسلی عصبیت کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں‘‘۔ ایوانِ نمائندگان کی اسیپکر نینسی پلوسی نے کہا: ’’ہم کیپیٹل ہل پر حملہ آور حلف یافتگان کی انکوائری کے لیے نائن الیون کی طرزپر کمیشن بنائیں گے ‘‘۔

View : 679

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.