افغانستان کی صورتِ حال اور اقوامِ عالَم کا رویہ

                زمینی صورتِ حال یہ ہے کہ طالبان نے وادیِ پنجشیر کے سوا پورے افغانستان کاکنٹرول حاصل کرلیا ہے، وادیِ پنجشیر کا بھی محاصرہ کر رکھا ہے، لیکن ان کی ترجیح یہ ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل ہوجائے ،کشت وخون اور مسلّح تصادم کی نوبت نہ آئے، افغانستان پر اتنا محیط اوربلا شرکتِ غیرے تصرف اتحادی افواج سمیت ماضی میں کسی حکومت کے پاس نہیں رہا، حکومتیں کابل کے کنٹرول پر اکتفا کرکے قبائلی اشتراک سے معاملات کو چلاتی رہی ہیں۔

                امریکہ اور نیٹو کے زیرِ قیادت بیس سالہ یلغار کے بعد امریکہ نے اپنی ناکامی کو تسلیم کیا ہے، ان کی خفّت مٹانے کے لیے شکست کا عنوان نہ بھی دیا جائے، یہ تو انھیں بھی تسلیم ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے تسلیم کیا ہے :’’انخلا ء کے مرحلے میں جو افراتفری اور بدنظمی نظر آئی ہے، دس سال بعد بھی فیصلہ کرتے تو ایسا ہی منظر ہوتا‘‘، ان کا یہ اعتراف درست ہے، انھوں نے کہا:’’چار امریکی صدور اس صورتِ حال کو بھگت چکے ، میں نہیں چاہتا کہ پانچویں صدر کو  یہ بحران منتقل کیا جائے ، نیز ہم اپنی ایک اور نسل کوبے مقصد جنگ کی نذر نہیں کرسکتے‘‘، انھوں نے کہا:’’ کیاآپ چاہتے ہیں:میں امریکیوں کے مزید بیٹے بیٹیوں کو افغان خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے بھیجوں، جبکہ افغان فوج خود لڑنے کے لیے تیار نہ ہو، میں آرلنگٹن کے قبرستان میں ختم نہ ہونے والی کتبوں کی قطاریں نہیں چاہتا، ہم نے افغان فوج کی ہر طرح سے مدد کی ،ان پر سینکڑوں ارب ڈالرخرچ کیے، بہترین سامانِ حرب فراہم کیا،لیکن لڑنے کا جذبہ ہم نہ دے سکے‘‘۔ بائیڈن نے کہا: ’’مجھے اپنے انخلاء کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے‘‘ ۔ برطانوی سیکرٹری دفاع بین ویلس نے کہا:’’افغانستان پر طالبان کا قبضہ عالمی برادری کی ناکامی ہے، افغانستان کی جنگی تاریخ ہزار سال پرمحیط ہے،یہ ایک دوعشروں میں حل ہونے کا مسئلہ نہیں ہے،لیکن مغربی طاقتیں اب پالیسی کے معاملات میں دوررس نظر نہیں رکھتیں‘‘۔

                ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبان کو افغانستان پر قبضے کے بعد سازگار ماحول دیا جاتا، ان کے بارے میں اچھی توقعات قائم کی جاتیں، ان کی مدد حسبِ سابق جاری رکھی جاتی تاکہ بحرانی صورتِ حال پیدا نہ ہواور اُن کے لیے حالات پر مکمل قابو پانا اور نظم ونسق قائم کرنا آسان ہو، کیونکہ اشرف غنی حکومت کے مقابلے میں انھیں عوام کی تائید وحمایت حاصل ہے ،پس وہ بہتر نتائج دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ لیکن اقوامِ متحدہ اور مغربی طاقتوں نے ردِّعمل دینے میں انتہائی عجلت سے کام لیا، تنبیہات جاری کرنااور مطالبات کی فہرستیں پیش کرنا شروع کردیں،امداد روک لی، یہ انتہائی عاقبت نااندیشی ہے۔ اللہ کی تقدیر سے تبدیلی اتنی جلد رونما ہوئی کہ امریکہ واتحادی ، اشرف غنی حکومت حتیٰ کہ شاید طالبان کو بھی اتنی جلد مکمل فتح کا اندازہ نہیں ہوگا۔ عالمی برادری کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ طالبان کا اکیسویں صدی کاموجودہ ایڈیشن بیسویں صدی کی آخری دہائی سے مختلف ہے، یہ آزمائشوں ، مخالفین کی اذیت رسانی ، قید وبند کی صعوبتوں اور دو عشروں پر محیط طویل جنگ کے تجربے سے گزرے ہیں، ان پر عالمی برادری کے دہشت گردی کے فتوے اس سے سوا ہیں، پس انھیں شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ان کے عمل کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔

                امریکہ اوراتحادیوں کا ردِّعمل تو درکنار ، ہمارے لبرل عناصر اور بیشتر تجزیہ کاروں کا ردِّعمل بھی کچھ مختلف نہ تھا، وہ موجودہ طالبان کو ایک بار پھر امریکہ کی پیداوار قرار دے رہے تھے، ان کی فتح کو دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، یہ تاثر دے رہے تھے کہ گویا یہ سب کچھ اتحادی افواج کی منصوبہ بندی سے ہوا، اگر وہ منصف مزاج ہیں، توان تبصروں پرانھیں ندامت کا اظہار کرناچاہیے۔ ہماری حکومت کے بعض زعماء نے بھی عالمی برادری کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے بعض غیر محتاط بیانات دیے، ایسے پیغامات سفارتی ذرائع سے دیے جاتے ہیں،یہ کہنا :’’طاقت کے بل پر کابل پر قبضہ تسلیم نہیں کیا جائے گا‘‘،باعثِ حیرت ہے ، جنگ میں تو طاقت ، حوصلہ ، ہمت، جرأت واستقامت اور حسنِ تدبیر ہی کارگر ثابت ہوتی ہے۔

                طالبان بظاہر وسیع البنیاد حکومت بنانے پر آمادہ ہیں ، لیکن وہ نفاذِ شریعت کے بنیادی ایجنڈے سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہیں، وہ انتظامی امور میں دوسرے طبقات کو شریک کرسکتے ہیں ، لیکن پالیسی سازی ان کا حق ہے۔ دوسرے تو دو عشروں سے اتحادیوں کی نوازشات سے لطف اندوز ہورہے تھے،وہ اندرونِ ملک شاہانہ زندگی اور بیرونِ ملک محفوظ اثاثوں کے انتظامات کرنے میں مگن تھے ، جبکہ طالبان بیس سال کانٹوں پر سفر کرتے رہے ہیں، انھوں نے راحت کا کوئی لمحہ نہیں دیکھا، آتشیں اسلحہ ان کا تعاقب کرتا رہا ہے، کیا یہ مطالبہ انصاف پر مبنی ہے کہ سب کی حیثیت یکساں ہوجائے۔ البتہ انھوں نے غیر متوقع طور پر سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرکے اپنے دشمنوں کی آغوش میں پھلنے پھولنے والوں اوراپنا خون بہانے والے دشمنوں کو تہِ دل سے معاف کردیا ہے۔ آج وہ سارے مخالفین کابل میں موجود ہیں، کیا طالبان کا یہ عمل اُن کے بارے میں اچھا تاثر قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیا دنیا میں بادشاہتیں ، آمرانہ اورغیر جمہوری حکومتیں نہیں ہیںاور جمہوری حکومتوں کے غیر جمہوری انداز نہیں ہیں، سب شرائط یک دم انھی پر مسلّط کردی جائیں جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں سال چھ مہینے کا موقع دیاجائے، اس عرصے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاوقتیکہ اُن کے کسی قول وفعل سے اُن کی یقین دہانیوں اور صریح اعلانات کے برعکس کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہ آئیں۔ اُن کا اصل امتحان تو یہ ہے کہ اپنے دعووں کے مطابق انتقامی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کریں اور افغانستان کے تمام لسانی اور قبائلی گروہوں کو ایک متحد قوم کے سانچے میں ڈھالیں۔

                انھیں سب سے پہلے تو اس بات کی ضمانت دینی ہے اور اس کی مکمل نگرانی کرنی ہے کہ اُن کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف منفی سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو، طالبانِ پاکستان کے حوالے سے اُن کا واضح پیغام آچکا ہے ، بھارت کے حوالے سے گلبدین حکمت یار کا دوٹوک بیان بھی آچکا ہے، یہ اچھی علامات ہیں۔ سب سے زیادہ دبائو اور پروپیگنڈا خواتین کے حقوق کے حوالے سے کیا جارہا ہے، روسی صدر پوتن نے درست کہا:’’ امریکہ اور اتحادیوں کو اپنی تہذیب وثقافت اوراقداردوسروں پرجبراً مسلّط نہیں کرنی چاہییں ‘‘، جس طرح اہلِ مغرب کو اپنی اقدار طے کرنے کا حق ہے،اسی طرح انھیں یہی حق دوسروں کو بھی دینا چاہیے۔ تعلیم حاصل کرنے کے حق سمیت خواتین کے جملہ حقوق کی ضمانت اسلام نے عطا کی ہے، بلکہ تعلیم اور طب کے شعبے میں بطورِ خاص خواتین متخصِّصات کی ضرورت رہتی ہے تاکہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک خواتین کے تعلیمی ادارے خواتین ہی کی نگرانی میں قائم ہوں ، اسی طرح طب کی تعلیم کا انتظام بھی یونیورسٹی کی سطح تک ہونا چاہیے۔ لیکن وہ یقیناحجاب کا کوئی نہ کوئی معیار قائم کریں گے، یہ ہمارے دین کا تقاضا ہے اور افغانوں کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا بھی یہی تقاضا ہے، اس پر کسی کو چیں بہ جبیں ہونے یا انھیں ملامت کرنے کا قطعاً کوئی حق نہیں پہنچتا۔اس سے قطع نظر کہ نظامِ انتخابات منصفانہ ہے یا نہیں،جمہوری نظام میں بھی جو جماعت انتخاب جیتتی  ہے، حکمرانی کا حق اُسی کو حاصل ہوتا ہے، کوئی یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ سب کو اقتدار میں حصے دار بنایا جائے، توطالبان پر یہ شرط عائد کرنے کا کیا جواز ہے۔ ہاں ! ان کی اپنی صفوں اورمختلف سطح کے تنظیمی شعبہ جات میں تمام طبقات کی نمائندگی ہونی چاہیے تاکہ کسی لسانی، مذہبی یاقبائلی طبقے میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ اشرف غنی کے دونوں صدارتی انتخاب متنازعہ رہے ہیں ، نو ماہ تک نتائج کا اعلان نہ ہوسکا اور پھر امریکی دباؤ کے تحت عبداللہ عبداللہ مفاہمت پر مجبور ہوئے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ امریکہ کے 2020کے انتخابات کو  غیر منصفانہ اور چوری شدہ قراردے رہے ہیں، یہی صورتِ حال ہمارے ملک میں ہے، تو ساری شفافیت ، جمہوریت ، حقوق کا مطالبہ صرف طالبانِ افغانستان سے کیوں، انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملنا چاہیے ۔ ہماری حکومت نے بھی سودن مانگے، پھر دو سودن، پھر سال اور اب پوری پنج سالہ مدت ، لیکن طالبان سے یہ مطالبہ کہ پلک جھپکتے ہی سب کچھ ہوجائے، جبکہ وہاں تعمیرِ نو ، اداروں کی ساخت ،ہرسطح تک نظم ونسق کا قیام اور بہت سے اہم امورطے ہونے باقی ہیں۔

                طالبان کے کابل میں آنے کے بعد کسی غیر ملکی سفارت خانے پر کوئی حملہ نہیں ہوا،لیکن سراسیمگی پھیلانے کے لیے تمام مغربی اور ان کے ہمنوا ممالک نے اپنے سفارت خانے بند کردیے ، اسے درست سفارتی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ تاہم خطے کے ممالک روس ، ایران ، چین اور پاکستان کے سفارت خانے کھلے ہیں ، مصروفِ عمل ہیں ، ان ممالک کے ساتھ طالبان حکومت کے سفارتی روابط بھی قائم ہیں، مشاورت کا سلسلہ بھی جاری ہے اور پاکستان وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لیے سہولت کار کا فریضہ بھی انجام دے رہا ہے، یہ اطمینان بخش بات ہے۔ سب سے زیادہ بے چینی بھارت کو ہے ، کہاجاتا ہے کہ اس نے وہاں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اگر اس نے یہ سرمایہ کاری افغان ملک وقوم کی فلاح کے لیے کی ہوتی ، تو اُسے بے چینی اور اضطراب کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور اگر اس کے پیچھے اس کی بدنیتی کارفرما ہے اور اس نے یہ سب کچھ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کیا ہے ، تو اللہ کا شکر ہے کہ اس نے جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر الٹ نکل آئی ہے ، یہ اس کی بدنیتی کا ثمر ہے ۔

                جہاں تک کابل ائیرپورٹ پر افراتفری ، عوام کی یلغار اور بدنظمی کا تعلق ہے، تو اس کا تعلق امریکہ اور اتحادی ممالک کی بے تدبیری سے ہے ، طالبان سے معاہدے کے وقت ہی انھیں اپنے ترجمانوں اور مخبروں کوسفری دستاویزدے دینی چاہییں تھیں جو انخلاء کے وقت کام آتیں اور بدنظمی نہ ہوتی۔ جب کسی پسماندہ ملک میں امریکہ جانے کااعلانِ عام کردیا جائے تو ایسی ہی ہڑبونگ ہوگی اور جانی نقصان بھی ہوگا۔ایران ، روس ، چین اورطالبان میں امریکہ دشمنی قدرِ مشترک بن سکتی ہے ، نیز چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹوکی کامیابی کا مدار بھی افغانستان کے دیرپا امن پر ہے، لہٰذا وہ افغانستان میں کسی بدنظمی کے حامی نہیں ہوسکتے۔

View : 729

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.