تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزارتِ مذہبی امور نے اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت کے ساتھ اس بِل کونظر ثانی کے لیے واپس وزارتِ حقوقِ انسانی کو بھیجا ہے،لیکن دستوری اعتبار سے یہ اب تک پارلیمنٹ کی ٹیبل پر موجود ہے اور کسی بھی وقت اسے منظوری کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے تاوقتیکہ اسے وزارتِ قانون وپارلیمانی امور باقاعدہ واپس نہ لے،نیز وزارتِ مذہبی امور کی سفارش میں اٹھارہ سال کی عمر اور تین مہینے انتظار کرنے کی بات کی گئی ہے ،لیکن واضح طور پر نہیں کہا گیا کہ قبولِ اسلام پر عمر کی پابندی لگانا یا حکومت کی اجازت سے مشروط کرنا غیر شرعی ہے، سینیٹر مشتاق احمد نے شواہد کے ساتھ کہا ہے :’’یہ بِل یورپین یونین کے مطالبے پر پیش کیا گیا ہے‘‘۔
ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے : رسول اللہ ﷺ نے مثال کے ذریعے سمجھایاکہ جس طرح پروانے آگ میں گر کر فنا ہوجاتے ہیں، اسی طرح تم اپنی بد اعمالیوں کے سبب جہنم کی آگ میں گرا چاہتے ہواور میں تمھیں کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچارہا ہوں ، (بخاری:6483)‘‘،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر فرمائی، جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اُس نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا اورتم اس کے فضل کی بدولت بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے(اور جہنم میں گرا ہی چاہتے تھے کہ)، اُس نے تمھیں اس سے نجات دیدی، (آل عمران:103)‘‘۔
نیزفرمایا: ’’بیشک تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسولِ عظیم تشریف لائے ،تمھارا مشقت میں پڑنا اُن پر بڑاگراں ہے، وہ( تمھارے ایمان لانے کے )شدت سے خواہش مند ہیں ،مومنوں پر (تو وہ) نہایت مہربان اور رحم فرمانے والے ہیں، (التوبہ:128)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے شدت سے خواہش مند تھے، حتیٰ کہ اسلام قبول کرنے والوں کی نازبرداری فرمایا کرتے تھے،حدیث پاک میں ہے:
’’حضرت عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں:جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا فرمائی ،تو میںنے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی:(یارسول اللہ!) اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کروں، جب رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایاتو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا:عمرو! تمھیں کیا ہوا،انھوں نے عرض کی: اسلام قبول کرنے کے لیے میری شرط ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: بولو! تمہاری شرط کیاہے، کہا: میری بخشش ہوجائے، آپ ﷺ نے فرمایا: تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کی تمام معصیتوں کو مٹادیتا ہے،(مسلم:121)‘‘۔غورکیجیے! اصولی طور پر تو رسول اللہ ﷺ کو شرط عائد کرنی چاہیے ، کیونکہ آپ اُن کی نَجات کا سامان کر رہے ہیں ، لیکن آپ اسلام کی خاطر اُن کی نازبرداری فرماتے ہوئے پوچھتے ہیں : تمہاری کیاشرط ہے، آپ کی یہ ادا قرآنِ کریم کے ان مبارک کلمات کا مظہر ہے :’’وہ تمہارے (اسلام قبول کرنے کے)شدت سے خواہش مند ہیں، (التوبہ:128)‘‘، آپ نے اہلِ طائف کی آنے والی نسلوں کے ایمان کی خاطر انھیں اُس عذاب سے بچالیاجس کے وہ حق دار تھے، حدیث پاک میں ہے:
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی ﷺ سے عرض کی:کیا آپ کے اوپر کوئی ایسا دن بھی آیا جو غزوۂ اُحد کے دن سے بھی زیادہ شدید تھا، آپ ﷺنے فرمایا: تمھاری قوم سے مجھے بے انتہامصیبتیں پہنچیں، ان میں سے سب سے زیادہ سخت مصیبت وہ تھی جو مجھے طائف کے دن پہنچی، جب میں ابن عبد یا لیل سے ملا، اس نے میری خواہش کے برعکس میری دعوت کو قبول نہ کیا، میں وہاں سے غمگین حالت میں چل پڑا، پھر جب میں قرنُ الثعالب پر پہنچا تو میری حالت سنبھلی، میں نے سر اٹھاکردیکھا: مجھ پر ایک بادل سایا کیے ہوئے ہے ، پھر میں نے دیکھاکہ اس میں جبریل ہیں، انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا: بے شک آپ کی قوم کا جواب اللہ نے سن لیا ہے ، اللہ نے آپ کی طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ انھیں ان لوگوں کے بارے میںجو چاہیں حکم دیں، پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ،مجھے سلام کیااورکہا: اے محمد!(ﷺ) آپ ان کی بابت جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تودونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادوں(تاکہ یہ ان کے درمیان پِس جائیں)، تونبی ﷺ نے فرمایا: (ایسا نہ کریں)مجھے یقین ہے : اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، (بخاری:3231)‘‘۔ اسلام قبول کرنے کے لیے شریعت میں بلوغت شرط نہیں ہے، ذیل میں ہم ان صحابۂ کرام کی مثالیں پیش کریں گے، جنھوں نے بلوغت سے پہلے اسلام قبول کیا:
(۱)حضرت انس بیان کرتے ہیں:ایک یہودی لڑکا نبی ﷺ کا خدمت گزار تھا،وہ بیمار ہواتو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے ،اس کے سرہانے کی جانب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا: اسلام لے آئو، اس نے وہاں پر موجود اپنے باپ کی طرف دیکھا،اس کے باپ نے اس سے کہا: ابوالقاسم ﷺ کی بات مان لو، پس وہ اسلام لے آیا، پھر نبی ﷺ یہ ارشاد فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے: ’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسے جہنّم سے نجات عطا فرمادی، (بخاری:1356)‘‘،علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:
(۲)’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا،(اُسُدُ الْغَابَہ،ج:3،ص:589)،(۳)’’حضرت عمیر بن ابی وقاص قدیم الاسلام مہاجرین میں سے ہیں ،جو بدر میں شہید ہوئے ، نبی ﷺ نے کم عمر ی کی وجہ سے انھیں ابتدا میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی، پھر جب آپ ﷺ بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ رو پڑے ، آپ ﷺ نے انھیں اجازت دے دی، شہادت کے وقت ان کی عمر سولہ سال تھی، انھیں عمرو بن عبدِ وُدّ نے شہید کیا، (اُسُدُ الْغَابَہ، ج:4،ص: 287)،(۴)’’معاذ بن حارث بن رفاعہ انصاری صحابی ہیں، آپ کی والدہ عفراء بنت عبید بن ثعلبہ ہیں، آپ اور رافع بن مالک انصاری ہیں اورابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں، آپ اور آپ کے دونوں بھائی عوف اور معوَّذ بدر میں شریک ہوئے ،دونوں بھائی شہید ہوئے،آپ سے کئی صحابہ نے روایات لی ہیں،(۵)معوذبن عفراء کی والدہ کا نام عفراء ہے ،وہ بدر میں شریک ہوئے اورمعاذ بن عمرو کے ساتھ مل کر ابوجہل کو قتل کیا، آپ کھیتوں اور باغات والے تھے،یہ دونوں صحابہ پندرہ سال سے کم عمر میں غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو قتل کیا،(اُسُدُ الْغَابَہ، ج:6،ص: 197)‘‘۔
(۶)جب نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو زید بن ثابت کی عمر گیارہ سال تھی اور حربِ بُعاث میں وہ سولہ سال کے تھے اور اسی موقع پر ان کے والد شہید ہوئے، آپ ﷺ نے انھیں کم عمری کی وجہ سے بدر میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور لوٹادیاتھا،پھر یہ احد میں شریک ہوئے، (اُسُدُ الْغَابَہ ، ج:2،ص: 346)‘‘،(۷)حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: میں غزوۂ خندق کے دن تیرہ سال کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،میرے والد میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور عرض کر رہے تھے: یارسول اللہ! اس کاجسم مضبوط ہے، آپ ﷺ نے مجھے لوٹادیا ، وہ بیان کرتے ہیں:میں غزوۂ بنی مصطلق میں شریک ہوا، واقدی کہتے ہیں: ان کی عمر اُس وقت پندرہ سال تھی اورچوہتّر سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا، (اُسُدُ الْغَابَہ،ج:6،ص: 138)‘‘۔
(۸)محمد بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: انس بن مالک بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے ، ان کی لڑکپن کی عمر تھی ، وہ رسول اللہ ﷺ کے خدمت گار تھے اور جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو اس وقت اُن کی عمر باختلافِ روایات دس سال یا نو سال یا آٹھ سال تھی، (اُسُدُ الْغَابَہ ،ج:1،ص:294)،(۹)’’حضرت علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں:کچھ غلام یومِ حدیبیہ کو نبی ﷺ کے پاس معاہدۂ حدیبیہ سے پہلے حاضر ہوئے، ان کے مالکوںنے رسول اللہ ﷺ کو لکھا: محمد(صلی اللہ علیک وسلم) ! واللہ ! یہ آپ کے دین میں رغبت کی وجہ سے نہیں نکلے، یہ غلامی سے بھاگنے کے لیے نکلے ہیں، بعض صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! انھوں نے سچ کہا ہے، انھیں لوٹادیجیے، رسول اللہ ﷺ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: اے قریش! میں سمجھتا ہوں : تم لوگ اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اﷲتم پر کسی ایسے کو نہ بھیج دے جو اس (بدگمانی پر) تمہاری گردنیں مار دے،پس آپ ﷺنے انھیں واپس کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا :یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ لوگ ہیں، ( ابودائود:2700)‘‘،یعنی رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی بدگمانی کے باوجود اُن کے ظاہرِ حال کے مطابق فیصلہ فرماتے ہوئے اُن کااسلام قبول کیا اور اُن کی آزادی کا فیصلہ فرمایا،(۱۰)حضرت عبداللہ بن عمر اپنے والد حضرت عمر فاروق کے ہمراہ بالغ ہونے سے پہلے اسلام لائے ، انھوں نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی ، آپ کم عمری کے سبب غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ ﷺ نے دوسرے نابالغ لڑکوں کے ہمراہ آپ کو واپس بھیج دیا تھا، (اُسُدُ الْغَابَہ، ج:3، ص:336)،(۱۱)حضرت ولید بن عقبہ اُس وقت اسلام لائے جب وہ قریب البلوغ تھے، (اُسُدُ الْغَابَہ، ج:5، ص:420)، نوٹ: یہاں شرعی بلوغت مراد ہے، ہمارے دور کی اٹھارہ برس سے زائد عمر کی قانونی بلوغت مراد نہیں ہے،(۱۲)حضرت معاذ بن جبل نے اٹھارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا، (اُسُدُ الْغَابَہ،ج:5،ص:187)،(۱۳)حضرت زبیر بن العوام کے اسلام قبول کرنے کی عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں: آٹھ سال، بارہ سال، پندرہ سال اور سترہ سال ،ایک قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے پانچویں فرد تھے،(اُسُدُ الْغَابَہ،ج:2،ص: 307)‘‘۔
عین میدانِ جنگ میں کسی کے قبولِ اسلام کو ردّ کرنے پررسول اللہ ﷺ نے شدید وعید فرمائی ہے، خواہ اُس ردّ کے حق میں ظاہری قرائن بھی موجود ہوں،بخاری ومسلم کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے:
’’جنگ کے دوران حضرت اسامہ بن زید ایک کافر پر غالب آگئے اورکلمہ پڑھنے کے باوجود اُسے قتل کردیا،نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ملی توآپ ﷺنے فرمایا:اسامہ! کلمہ پڑھنے کے باوجود تم نے اسے کیوں قتل کردیا،انھوں نے عرض کی:(یارسول اللہ!) اس نے توجان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا،آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے دل کو چیر کرکیوں نہ دیکھ لیا، کل قیامت کے دن اگر وہ کلمۂ طیبہ کی امان لے کر اللہ کی عدالت میں آگیا تو کیا جواب دو گے‘‘۔