کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!

                زیاں اور خسارہ بلاشبہ ناکامی کی علامت ہے ، لیکن زیاں سے بھی بڑھ کرالمیہ یہ ہے کہ فردیا ملّت کے دل ودماغ سے’’ احساسِ زیاں ‘‘بھی جاتا رہے ، چنانچہ علامہ اقبال نے کہا:

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

                اگر فرد یا ملّت کے دل ودماغ میں ’’احساسِ زیاں ‘‘زندہ رہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اُس زیاں پر قابو پالیا جائے گا ، اس کی تلافی کی جائے گی اور قوم وملّت دوبارہ عزت وسرفرازی کی منزلوں کی طرف گامزن ہوجائے گی ، لیکن اگر قوم وملّت کے دل سے’’ احساسِ زیاں ‘‘ہی جاتا رہے ،توپھر علامہ اقبال نے زیاں سے بھی بڑھ کر ’’احساسِ زیاں‘‘ کے فقدان کو سب سے بڑی ناکامی سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ جس قوم اور ملّت میں احساسِ زیاں باقی نہ رہے، یعنی اجتماعی ضمیر (Collective Conscience)اوردینی وملّی حمیت مرجائے ، تو پھر اس کی نشأۃ (Renaissance)یعنی اِحیاء کا امکان باقی نہیں رہتا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بلکہ انسان اپنے نفس پر خود آگاہ ہے ، خواہ وہ (اپنی بے عملی اور ناکامی کو چھپانے کے لیے ) عذر تراشتا رہے، (القیامہ:14-15)‘‘۔ عروج وزوال اور فتح وشکست کے دن قوموں کی تاریخ میں آتے رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور ہم لوگوں کے درمیان (عروج وزوال کے) ان دنوں کو گردش دیتے رہتے ہیں، (آل عمران: 140)‘‘۔

                قیصر کے دربار میں جب رسول اللہ ﷺ کا نمائندہ پہنچا ،تو اُس نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے قریش کے تجارتی قافلے کے سربراہ ابوسفیان کو دربار میں بلایا اور اس سے پوچھا: ’’تمہاری کبھی اُن سے جنگ بھی ہوئی ہے ، ابوسفیان نے کہا: ہاں !،اُس نے پوچھا: اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلا ، ابوسفیان نے کہا: جنگ میں کبھی ہمارا پلڑا بھاری ہوجاتا اور کبھی اُن کا،(صحیح البخاری:7)‘‘،لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل غلبہ عطا فرمایا اور فتحِ مُبین عطا کی۔الغرض جب قومیں جفاکش ،  اولوالعزم اور حوصلہ مند ہوتی ہیں ، قوتِ ایمانی اور جذبۂ ایثار سے معمور ہوتی ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ پانسہ اُن کے حق میں پلٹ جاتا ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:

رہزنِ ہمّت ہُوا، ذوقِ تن آسانی ترا

بحر تھا صحرا میں تُو، گلشن میں مثلِ جُو ہوا

                ’’یعنی تن آسانی نے مسلمانوں سے ہمت اور حوصلے کو چھین لیا ، کبھی تو وہ صحرا میں بحرِ بے کراں کی مانند تھے اور اب حال یہ ہے کہ گلشن میں ایک سمٹی ہوئی نہر بن چکے ہیں‘‘، وہ کہتے ہیں:

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تُو

آہ، کس کی جُستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو

کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا

ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تُو

                ان اشعار میں علامہ اقبال دہقاں کوایک استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’اگر مردِ مومن اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجائے ، تو پھر اُسے سمجھ میں آجائے گا کہ اگر وہ ہمت کرے تو بہت کچھ کرسکتا ہے، اپنی کھوئی ہوئی متاعِ افتخار کو دوبارہ حاصل کرسکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس حقیقت کو سمجھ لے :

نہ تُو زمیں کے لیے ہے، نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے

                ہم نے یہ کلمات تمہید کے طور پر لکھے ہیں ، ہم 16دسمبر1971ء فراموش کرچکے ہیں، آج اس سانحے کو پچاس سال ہوا چاہتے ہیں، لیکن ہماری نئی نسل اس المیے سے بے خبر ہے ، کیونکہ ہمارے ہاں نہ 1857کی جنگِ آزادی پڑھائی جاتی ہے، نہ تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور نہ پاکستان کی تاریخ ہمارے قومی نصاب کا حصہ ہے ،حالانکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں کوئی شخص سائنس، ٹیکنالوجی ، معاشیات ، سماجیات ، ادبیات اور تاریخ الغرض کسی بھی شعبے میں جانا چاہتا ہو، مگر اسکول گریجویشن کی سطح تک اُسے اپنے ملک کی تاریخ پڑھنی ہوگی۔ مزید المیہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ متفق علیہ نہیں ہے، ہر ایک کی اپنی تشریح ہے ، اپنی تعبیر ہے ، ہر ایک اپنا من پسند نتیجہ نکالنا چاہتا ہے، ہم قوم کے نوجوانوں کو ماضی کے احساسِ زیاں اور ناکامیوں سے بہرہ مندہوتے دیکھنا نہیں چاہتے، ہم حقائق کو اُن کے سامنے مستور رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اُن پر ایک مصنوعی سحر طاری رہے اور وہ یہ سوال نہ کرسکیں کہ قائدِ اعظم کا بنایا ہوا پاکستان کیوں ٹوٹا، اس کا ذمے دار کون ہے، اس کے اسباب کیا تھے ، کیا کبھی اس کے ذمے داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ ہم نے 16دسمبر2014کو رونما ہونے والے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے اور المیے کو اس لیے زیادہ شدت سے نمایاں کیا کہ اس کی آہوں اور سسکیوں میں 16دسمبر1971کا المیہ دب کر رہ جائے ۔

                آج کہنے کو تو ہماری منتخب پارلیمنٹ موجود ہے، لیکن ہم اس پارلیمنٹ میں اپنی قومی اور ملی تاریخ کو ،اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان کو زیرِ بحث لانا ہی نہیں چاہتے ، ہم گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہماری کوئی متفق علیہ اور مسلّمہ منزل نہیں ہے، نہ کوئی آدرش ہے ، نہ کوئی ملّی امنگ ہے اور نہ کوئی اولوالعزم اور حوصلہ مند رہنما ہے، علامہ اقبال کہتے ہیں:

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو

ترس گئے ہیں کسی مردِ راہداں کے لیے

نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

                پس نہ کوئی نشانِ راہ ہے، نہ کوئی مردِ راہداں اور نہ کوئی میرِ کارواں ہے، جس کے اوصاف علامہ اقبال نے مندرجہ بالا اشعار میں بیان کیے ہیں۔ ہمارا آج کا میرِ کارواں ملک کے اندر ہو یا ملک سے باہر کہیں جائے، وہ چوراہے کے بیچ میں کھڑے ہوکر اپنے ہی آلودہ پوتڑے دنیا کو دکھارہا ہوتا ہے، گویا یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی اعزاز ہے ، نہ افتخار ، نہ نشانِ منزل ہے اور نہ میرِکارواں کہ جو دنیا کو پاکستان کا اچھا چہرہ دکھائے، اپنی قوم کو امید کی کرن دکھائے، بس ہمارے پاس قوم کے نوجوانوں کو ورثے کے طور پر منتقل کرنے کے لیے یاس ہے، حِرماں ہے، ملامت ہے ، تاسُّف ہے ، رنج وملال ہے ، ایک دوسرے سے نفرت ہے، اگر نہیں ہے تو امید کی کرن نہیں ہے۔

                ہمارے کالم نگار ، تجزیہ نگار ، دانشور ، سیاست دان الغرض تمام طبقات قوم کو تازہ مسائل کے الجھائو میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں، انھیں اپنی دکان کی رونقیں قائم رکھنے کے لیے تازہ سودا بیچنا ہوتا ہے، جس کا ماحصل نئی نسل کے لیے ذہنی اور فکری انتشار کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا، وہ ایسا شوروغوغا بپا کرنا چاہتے ہیں کہ کسی کو اپنا قومی اور ملّی ماضی جاننے کا شعور بھی نہ رہے، نئی نسل تو ویسے بھی ٹک ٹاک، ٹویٹر، انسٹاگرام، وٹس اپ، فیس بک اور نہ جانے کن کن خرافات میں ہمہ وقت محو رہتی ہے۔ایسے میں اقبال کی بانگِ درا پر کون کان دھرے گا اور وہ نوجوان نسل کا رشتہ جس ماضی سے جوڑنا چاہتے ہیں، اس کی طرف کون متوجہ ہوگا ، وہ اپنا دردِ دل اور اپنا ذہنی کرب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کبھی اے نوجواں مسلم!تدبّر بھی کِیا تُو نے

وہ کیا گردُوں تھا، تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا ہے، آغوشِ محبّت میں

کُچل ڈالا تھا جس نے ،پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے ،کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے

جہاںگیر و جہاںدار و جہاںبان و جہاںآرا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر، الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے ،وہ نظّارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ،ہو نہیں سکتی

کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا، کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں ،تو دل ہوتا ہے سیپارا

                علامہ اقبال کہتے ہیں: میں نے جب اَزْمنۂ (زمانہ کی جمع)وُسطیٰ کے مسلمانوں کی سائنسی ،علمی اور تحقیقی کتابوں کو یورپ کی لائبریریوں میں دیکھا تومیرا دل ریزہ ریزہ ہوگیا ، حکومت تو ایک عارضی شئے تھی جو اپنی نالائقیوں کے باعث چلی گئی ، لیکن علم کی امامت تو ابدی اور دائمی اثاثہ ہے ، اس کا چھن جانا بہت بڑاالمیہ اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’حکمت ودانش کی ہر بات مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے، سو وہ اُسے جہاں بھی پائے، اس کا اصل حق دار یہی ہے ، اسے آگے بڑھ کر اُسے لے لینا چاہیے، (ترمذی:2687)‘‘۔ وہ کہتے ہیں: اے مردِ مومن! تجھے اپنے آباسے کوئی نسبت ہی نہیں ، کیونکہ تو گفتار ہی گفتار ہے ، یعنی محض باتونی ہے اور وہ صاحبانِ کردار تھے، تو قوموں کی ترقی کی دوڑ میں جمود کا شکار ہے اور وہ سرعتِ رفتار سے ترقی کی منازل کو طے کرتے جاتے تھے، سو جب ہم نے اسلاف کی میراث کو گنوادیا تو اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کے مطابق آسماں نے ہمیں ثریا کی بلندیوں سے زمین پر دے مارا۔

View : 8655

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.