قیامت سے پہلے(حصہ دوم)

                قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ کی زمین پر جو خرابیاں پیداہوں گی اور پھیل جائیں گی، احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پچھلے کالم میں ہم نے اُن کو بیان کیاہے، مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں ،اُن میں بعض امور کا تکرار ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب یا مُصلِح یا واعظ ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نئی بات بھی آجاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے، لہٰذا نئے شرکاء کے لیے انہی باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے،اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تئیس سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا، سطورِ ذیل میں ہم چندنئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:

(۱)سابق امتوں کی پیروی: آپ ﷺنے فرمایا :’’تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، حتیٰ کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ، تو تُم بھی داخل ہوگے ، ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا : اور کون، (بخاری : 7320) ‘‘۔

(۲)وقت سمٹ جائے گا:  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زمانہ قریب ہوجائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر ،ہفتہ ایک دن کے برابر، دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گااورساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی، ( ترمذی:2332)‘‘۔ وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور سالوں میں طے ہوتے تھے، اب گھنٹوں میں طے ہورہے ہیں، وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے ، اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تواگلے دن کی فجر کی نماز نیو یارک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ کراچی سے نیو یارک کا فضائی فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے ،لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہوجاتاہے۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تکلیف کے لمحات صدیوں کی مانند بھاری محسوس ہوتے ہیں اور راحت کے لمحات کے بارے میں لگتاہے کہ پل بھر میں گزر گئے۔

(۳)اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(۱): ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ دنیا سے بے رغبتی ایک روایت اور ورع وتقویٰ تصنُّع اور بناوٹ بن جائے گا، (حلیۃ الاولیاء،ج:3،ص:119)‘‘، (۲) ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائے گی، ( ترمذی:2209)‘‘۔

(۴) اچانک اموات: نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنالیا جائے گااور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے، (المعجم الاوسط:4861)‘‘۔آجکل بوجوہ ہارٹ اٹیک ، برین ہیمریج کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہورہے ہیں،اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چکنائی سے معمور غذائوں اور کئی طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائیں ذیلی اثرات(Side Effects) کی حامل ہوتی ہیں،یعنی اگر کوئی دوا ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہے تو دوسری بیماری کاسبب بن جاتی ہے،اسی لیے ان دوائوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے دوسری دوائیں شامل کی جاتی ہیں، جنھیں طبِ قدیم کی  اصطلاح میں ’’بَدرَقَہ‘‘ کہتے ہیں۔ 

(۵) ہم جنس پرستی:  طویل حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہوگا، مرد مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں گی، زنا کی کثرت ہوگی‘‘۔اب تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیںہیں ، ایک حدیث میں فرمایا:’’باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب میں نکاح اور طلاق کو مشکل بنادیا گیا ہے اور جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیرجنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں،کرائے کی ماں برائے خدمت دستیاب ہوتی ہے،اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے،کیونکہ بعض لوگوں کو باپ کا نام معلوم ہی نہیں ہوتااور اب تو مردوں کی ہم جنس پرستی ، عورتوں کی ہم جنس پرستی ، متضاد جنس پرستی سے آگے بڑھ کر LGBT+گروپ بنالیا گیا ہے، یعنی اب یہ آوارگی مصنوعی جنسی اعضاء سے بڑھ کر حیوانات تک وسیع ہوجائے گی۔

(۶)دین پر چلنا دشوارہوجائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری اور فرضِ کفایہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کی (ہدایت )کے لیے ظاہر کیا گیا ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (آل عمران:110)‘‘۔ پھر جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ’’اے ایمان والو!تم اپنی فکر کرو، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا، (المائدہ: 105)‘‘، بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی، کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالناچھوڑو، بس اپنی فکر کرو ،جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری قرار دیتا ہے، چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے ابوثعلبہ خُشَنِی سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (یہ بات مجھے بھی کھٹکی تھی اور)میں نے اس کی بابت رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا:

                آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں)،بلکہ تم لوگوں کونیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو،حتیٰ کہ جب تم دیکھو:کمینوں کی اطاعت کی جارہی ہے اورخواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیاکو آخرت پر ترجیح دی جارہی ہے اور( دلیلِ حق سے اعراض کر کے) ہرشخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے،تو پھر تم اپنی فکر کرواور لوگوں کا خیال چھوڑ دو،کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں،پس ایسے مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنااس قدر مشکل ہوجائے گاجیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا،پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیااُس دور کے پچاس افراد کے برابر، آپﷺ نے (صحابہ سے)فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر، ( ابودائود: 4341)‘‘۔

(۷) عیسائیوں کاغلبہ :مستورِد القرشی نے حضرت عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہوگی ،اُن سے عمرو نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو، انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، حضرت عمرو نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں،شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں ، مسکینوں، یتیموںاور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں ،پھر آپ ﷺ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں، (مسلم:2898)‘‘۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان واعمالِ صالحہ پر ہے، لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچارہوتی ہیں،آج یہود ونصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔

(۸)بارشوں کا بے مصرف ہونا:  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو، بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے ، ( مسلم:2904)‘‘۔ اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہاکر لے جاتے ہیںاور بارش کے بعد جس خوشحالی کی توقع کی جاتی ہے، لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔

(۹)علمائے حق کا اٹھ جانا: حدیثِ مبارک میں ہے:’’عبداللہ بن عمرو بن العاص نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے)کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو، بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گاتولوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، (بخاری:100)‘‘۔ حکیم بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ سے شر کی بابت پوچھا:آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو، خیر کے بارے میں پوچھو،پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں،(سنن دارمی:400)‘‘۔ کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں، ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں،سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں،لیکن اگروہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تویہی وجہ فساد ہے، آپ ﷺ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا:

                ’’پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیاکہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا:یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتاتو اسے اُس کام سے نہ روکتابلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر)اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو یک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپ ﷺ نے المائدہ کی آیات  78تا80تلاوت کرکے فرمایا: ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اورتم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کردو گے ، (ابودائود:4336)‘‘۔قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔

View : 875

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.