قیامت کا قائم ہونا حق ہے اور اس کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کتُبِ حدیث میں ’’بَابُ الْفِتَن‘‘اور’’اَشْرَاط السَّاعَۃ ‘‘ کے عنوان کے تحت محدّثینِ کرام نے ایسی احادیث درج کی ہیں ، جنہیں ایسی علاماتِ قیامت قرار دیا گیا ہے ، جن کا ظہور ایک ایک کر کے قیامت سے پہلے ہوگااور ظاہر ہے کہ قیامت سے پہلے یہ سب علامتیں جمع ہو جائیں گی، کچھ علاماتِ قیامت کا تعلق تکوینی امور سے ہے :یعنی نظامِ کائنات کا درہم برہم ہوجانا، سورج کی بساطِ نورکا لپیٹ دیا جانا، ستاروں کا بکھر جانا ، پہاڑوں کا دھنکی ہوئی روئی کے بگولوں کی طرح اڑنا ، ہر ذی حیات کا فنا ہوجانا،اس گول زمین کی سطح کا ہموار اورمیدان کی طرح ہوجانا اور پھر میزانِ عدل قائم ہونا، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور جب زمین پھیلادی جائے گی اور جوکچھ اس کے اندر ہے، وہ باہر ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی، (الانشقاق:3-4)‘‘،اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ زمین اپنے سارے خزانے باہر نکال دے گی اوردوسرے معنی یہ ہیں کہ زمین کے سینے میں جو راز دفن ہیں اور سینۂ گیتی پر جو کچھ ہوتا رہا ، وہ سارا ریکارڈ ظاہر کردیا جائے گا، اسی حقیقت کو سورۃ الزلزال میں بیان فرمایا ہے:’’اور زمین اپنا تمام بوجھ نکال باہر کرے گی ،انسان (حیرت زدہ ہوکر )پوچھے گا: اسے کیا ہوا؟، اس دن زمین اپنی ساری خبریں بیان کردے گی، (الزلزال:2-4)‘‘۔
قیامت سے پہلے ان احادیثِ مبارَکہ کا قطعی مصداق تو ہم کسی ایک چیز یا عنوان کو نہیں ٹھیرا سکتے ، لیکن جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں ، تو بہت سے حقائق وواقعات ایسے ہیںجو قیامت کا منظر پیش کرتے ہیں اور یہ قیامت خیز منظر ہمارااپنا پیدا کیا ہواہے۔ پس حقیقی قیامت تو اﷲتعالیٰ کی تقدیر کے مطابق جب آنی ہے ، یقینا آئے گی ۔لیکن ہم نے اپنی انفرادی اور اجتماعی بداعمالیوں ، بے تدبیریوں اور خدافراموشی کے سبب قیامت برپا کررکھی ہے۔ بعض احادیثِ مبارَکہ ہمارے حالات پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں،لہٰذا ان کا بغور مطالعہ کیجیے اور عبرت حاصل کیجیے اور اگر ہوسکے تو ان حالات سے نجات کے لیے کوئی حکمتِ عملی مرتب دیجیے یا کوئی تدبیر اختیار کیجیے،ذیل میں تنبیہ اور عبرت کے لیے چند احادیثِ مبارَکہ درج کی جارہی ہیں:
(۱)رسول اللہ ﷺ سے ایک اَعرابی نے پوچھا قیامت کب آئے گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو، پھرسوال ہوا: یا رسول اللہ ! امانت کیسے ضائع ہوتی ہے، آپ ﷺنے فرمایا: جب مسلمانوں کے (ملکی اور ملّی) امور کااختیار نااہلوں کے سپرد ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرو، (صحیح بخاری:6496)‘‘۔(۲)آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے بہترین لوگ تمہارے حکمران ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوں تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا زمین کے نیچے چلے جانے سے بہتر ہے (یعنی تمہارے لیے زندگی میں خیر ہوگی)اور جب تم میں سے بدتر لوگ تمہارے حکمران بن جائیں ، تمہارے مال دار بخیل ہوجائیں اور معاملات کی باگ ڈور عورتوں کے ہاتھ میں چلی جائے توتمہارا زمین کے اندر چلے جانا زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے،(سنن ترمذی: 2266)‘‘، یعنی پھر زندگی میں کوئی خیر نہیں ہے۔
(۳)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قومی خزانے کو ذاتی دولت بنا لیا جائے ،قومی امانتوں کو مالِ غنیمت سمجھ کے لوٹا جانے لگے اورزکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کردیا جائے ، دین کا علم دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا جائے ، ایک شخص اپنی بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہوجائے، ایک شخص اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور رکھے، مسجد وں میں آوازیں بلند ہونے لگیں(یعنی جھگڑے ہوں)، بدکار شخص قبیلے کا سردار بن جائے ،قوم کی زمامِ اقتدارکمینوں کے ہاتھ میں آجائے اور (معاشرے میں ) کسی شخص کی عزت (اس کے علم ، کرداریا شرافت کے سبب نہیں بلکہ) اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے ،شراب نوشی عام ہوجائے، گانا گانے والیاں اور آلاتِ غِنا عام ہوجائیں اور اس امت کے پچھلے اپنے پہلوں پر لعن طعن کریں،توپھر تم اس وقت کا انتظار کروجب سرخ ہوائیں چلیں گی ، زلزلے آئیں گے، زمین میں دھنسا دیے جائو گے، صورتیں بگاڑی جائیں گی اورپتھر برسائے جائیں گے اورقیامت کی نشانیوں کااس طرح پے درپے ظہور ہوگا ، جیسے تسبیح کی لڑی کے ٹوٹ جانے سے اس کے دانے ایک ایک کر کے گرتے چلے جائیں ، (ترمذی:2211)‘‘۔صورتوں کے مسخ ہونے کی ایک شکل تو وہ ہے جیسے بنی اسرائیل کو ان کی مسلسل سرکشی اورنافرمانیوں کی وجہ سے بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھااور ایک صورت یہ ہے کہ اقوامِ عالَم کے درمیان بے توقیر ہوجائیں اورمسلمانوں کے لیے کوئی مقامِ افتخار باقی نہ رہے، شاعرنے کہا ہے :
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ہمارے لیے مقامِ غور ہے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں کردار، دیانت ، شرافت، امانت ، علم اور تقویٰ عزت وافتخار کا باعث ہے یا حدیثِ پاک کی رو سے دہشت ، ضرر رسانی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت باعثِ تکریم ہے۔
(۴)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جس قوم میں خیانت غالب آجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے دلوں میں دشمن کا رعب ڈال دیتا ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرے ، اس کے رزق میں تنگی آجاتی ہے اور جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرے تو اس میں خون ریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم عہدشکنی کرے تو اس پر دشمن غالب آجاتاہے،(مؤطا امام مالک:1670)‘‘۔ (۵)آپ ﷺ نے فرمایا:’’بے شک اﷲعام لوگوں کو کسی خاص شخص (یا طبقے )کی بدعملی کی سزا نہیں دیتا ، مگر جب (حالات یہاں تک پہنچ جائیں کہ)لوگ اپنے درمیان برائیوں کوپھلتا پھولتا دیکھیں اور ان کو روکنے کی اجتماعی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں (اورجب اجتماعی بے حسی اور لاتعلقی اس درجے تک پہنچ جائے) توپھر خواص کی بد اعمالیوں کی سزا عوام کو بھی ملتی ہے ،(مسند احمد:17720 )‘‘۔
(۶)رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے : فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو، جبرئیل امین عرض کرتے ہیں :اے پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی ) بندہ ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو ، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا ،(شعب الایمان:7189)‘‘۔حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں ، مُنکَرات کا چلن عام ہوتا رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی کاوش تو دور کی بات ہے ،حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پراس کی جبین کبھی شکن آلود نہیں ہوئی ، صرف اپنی عبادت ، ذکراذکار اورتسبیحات ودرودمیں مشغول رہا ، یعنی اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے کے حوالے سے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔(۷)نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، لوگوں پر ایک زمانہ ایساآئے گا کہ (قتل وغارت عام ہوجائے گی مگر)نہ قاتل کومعلوم ہوگا کہ وہ مقتول کو کس جرم میں قتل کررہا ہے اور نہ مقتول کو معلوم ہوگا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا جارہا ہے ،(صحیح مسلم:2908)‘‘۔
(۸)رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لیے آپس میں لڑپڑیں، تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنمی ہیں، عرض کیا گیا: یارسول اللہ !قاتل کا قصور تو معلوم ہے،لیکن مقتول کا کیا قصور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:وہ (بھی)اپنے مقابل کو قتل کرنے کا شدت سے آرزو مند تھا،(بخاری :6875)‘‘۔حدیث کا منشا یہ ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں لڑ پڑیں اور دونوںہی ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں، تو ظاہر ہے کہ کامیابی تواُن میں سے ایک کوملے گی اوردوسرا مارا جائے گا ، مگر چونکہ ارادۂ قتل کے عزمِ صمیم میں دونوں برابر ہیں، لہٰذادونوں جہنم کے حقدارہوں گے، یقینا قاتل کی سزا مقتول سے زیادہ ہوگی ، لیکن مقتول بھی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔وہ مقتول جو کسی ظالم حملہ آور، ڈاکو یا لوٹ مار کرنے والوں یا عصمت دری کرنے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان، مال یا آبرو کے تحفظ میں ظلماً مارا جائے ، حدیثِ پاک کی رو سے اسے شہید کا درجہ ملے گا۔
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا، وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا ،وہ شہید ہے اورجو اپنی جان کی حفاظت میں مارا گیا،وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل کی حفاظت میں مارا گیا، وہ بھی شہید ہے، (سنن ترمذی: 1421)‘‘، یعنی انھیں بھی شہادت کا درجہ ملے گا۔
(۹)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اﷲتعالیٰ کی حدود میں مُداہنت (یعنی بے جارعایت )کرنے والا یامحرماتِ شرعیہ کے بارے میں حدودِ الٰہی کو پامال کرنے والے کی مثال اس قوم کی سی ہے، جو ایک کشی میں سوار ہوئے ، بعض نچلی منزل پر اور بعض بالائی منزل پر چلے گئے ،تو جونچلی منزل پر تھا ، اس نے اوپر والوں سے پانی مانگا ، انہوں نے اسے تکلیف پہنچائی اور پانی دینے سے انکار کردیا،تو اس نے کلہاڑا لیا اور (دریا کا) پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی میں سوراخ کرنے لگا ، تو اوپر والے آئے اور اس سے کہا : یہ کیا کررہے ہو، اس نے کہا: تم نے مجھے (پانی نہ دے کر)تکلیف پہنچائی ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے ، تواگر انہوں نے (اس کی تکلیف) کا ازالہ کرکے اس کے ہاتھ روک لیے تواسے اوراپنے آپ کوڈوبنے سے بچالیں گے ،لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پرقائم رہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، تواس سمیت سبھی ہلاک ہوجائیں گے، (بخاری: 2286)‘‘۔ اس حدیث کا منشاء ومُدَّعایہ ہے کہ جب معاشرہ ایک سرکش طبقے کے ہاتھوں تخریب کاری ، دہشت گردی ، قتل وغارت، فساد اور بدامنی کا شکار ہوجائے اور معاشرے کا نظمِ اجتماعی (موجودہ حالات میں ریاست وحکومت)ان کو ظلم وفساد سے نہ روکے ، ان کی سرکوبی نہ کرے اور معاشرے کو ان سے امان نہ دے، توانجامِ کار ہلاکت وبربادی سب کا مقدر ہوگی،(جاری ہے۔۔۔)