سیکریٹ بیلَٹ کا فلسفہ

سیکریٹ بَیلَٹ سے مراد ووٹ کی پرچی کے ذریعے پسِ پردہ اور خفیہ طور پر کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دینا یا اپنی رائے کا اظہار کرنا ، اس میں رائے دہندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ سمجھ کر کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے ۔ اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام یا انتخابی نشان پرپولنگ افسر کی دی ہوئی ووٹ کی مُہر ثبت کرتاہے ۔ اسے خفیہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ فیصلہ کرے ،اس پر کسی کا دبائو نہ ہو،نیز اسے بعد ازاں کسی کے انتقام کا خوف نہ رہے ۔حالیہ سینٹ انتخابات میں خفیہ ووٹنگ کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا ہے ۔آئین کا آرٹیکل 226کہتا ہے :’’وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے سوا آئین کے تحت تمام انتخابات خفیہ بیلَٹ کے ذریعے ہوں گے‘‘۔ یہ آرٹیکل اپنے مفہوم پر بالکل واضح دلالت کرتا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
3مارچ کوسینیٹ کے ارکان اورپھر12مارچ کوچیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں جو ہونا تھا ، سو وہ ہوچکا ۔ اب ہم نظریاتی طور پر ’’خفیہ بیلَٹ ‘‘ کے فلسفے پر گفتگو کریں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جب صدارتی ریفرنس زیرِ بحث تھا، تواخبارات میں اور سوشل میڈیا پرجوعدالتی کارروائی رپورٹ ہوئی، اُسے ہم نے قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے انتہائی غور سے پڑھااور توجہ سے سنا، کیونکہ جو شخص پیشگی رائے قائم کر کے کسی موقف کو سنے تو وہ نظریاتی عصبیت کا شکار ہوجاتا ہے،سو ہم نے خالی الذھن ہوکر ان ساری ابحاث کو سنا اور اس کے بعد رائے قائم کی۔ اگر ہم سینیٹ الیکشن سے پہلے اپنی رائے کا اظہار کرتے توکوئی بدگمانی کرسکتا تھا کہ اس میں کسی کی جانبداری مقصود ہے۔ حاشا وکلّا! ہم ملک میں جاری سیاسی کھیل میں نہ کسی کے حریف ہیں اور نہ کسی کے حلیف ،بلکہ نفسِ مسئلہ پر گفتگو کرنا مقصودہے،سیاسی جماعتوں کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ ہر مرحلے پر یہ دیکھتے ہیں کہ اُن کا فائدہ کس میں ہے، لہٰذا وہ موقف بدلتے رہتے ہیں۔
ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے قابلِ صد احترام جج کا منصب آئین اورقانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کا آئینہ دارہوتا ہے،حتیٰ کہ کوئی عزت مآب جج اپنی ذاتی معلومات ، ذاتی ترجیحات اورذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ وہ زیرِ بحث مقدمے میں اپنے سامنے موجود دلائل وشواہد اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے، وہ اپنی پسند وناپسند کو گھر چھوڑ کر آتا ہے، اس نے آئین کی پاس داری کا حلف اٹھایاہوتا ہے ، وہ لوگوں کے انسانی ،مذہبی اور آئینی حقوق کا محافظ ہوتا ہے۔ اخلاقیات کا درس بہت اچھی بات ہے، لیکن عدل کرتے وقت نہ وہ’’مُعلِّم اخلاق ‘‘ہوتاہے اورنہ کسی روحانی خانقاہ کا مُربِّی ، مُزَکِّی اورمُصْلِح ہوتاہے، حدیث پاک میں ہے:
’’حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: جب بھی رسول اللہ ﷺ کودوچیزوں کے درمیان اختیار دیا گیاتو آپ نے (امت کی رعایت کرتے ہوئے)اُن میں سے آسان پہلو کو اختیار کیا، بشرطیکہ اُس میں گناہ کا کوئی شائبہ نہ ہواوراگر وہ چیز گناہ ہوتی توآپ تمام لوگوں سے زیادہ اُس سے دور رہنے والے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے (کسی سے) کوئی انتقام نہیں لیا، سوائے اس کے کہ اللہ کی (حدودکی)حرمتوں کوپامال کیاجاتا توآپ ایسے شخص سے اللہ (کی حدودکی حفاظت )کے لیے انتقام لیتے تھے، (صحیح البخاری:3560)‘‘۔
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے صدرِ پاکستان کے ریفرنس،اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دلائل اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے عالی مرتبت جج صاحبان کے ریمارکس اور آبزرویشن اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکانِ اسمبلی کا جو تناسب ہے ،تمام سیاسی جماعتوں کو سینیٹ میں اُسی تناسب سے نمائندگی ملنی چاہیے۔ اگر دستور کامنشا یہی ہوتا تو خواتین کی ترجیحی فہرست کی طرح ہر سیاسی جماعت اپنی طرف سے سینیٹ کے لیے بھی ایک ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پیشگی جمع کرادیتی اور الیکشن کمیشن منتخب ارکان کے تناسب سے اُس جماعت کو سینیٹ کی نشستیں الاٹ کردیتا، انتخابات کے جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ رہتی، کیونکہ جب یہ فرض کرلیا جائے کہ جو رکنِ اسمبلی اپنی پارٹی امیدوار کے بجائے کسی اور کو سینیٹ کے لیے ووٹ دیتا ہے تو وہ خائن اور ضمیر فروش ہے ،تو نہ خفیہ بیلٹنگ کی ضرورت ہے اور نہ سینیٹ کے ادارے کی ،آئین میں سینیٹ کے ادارے کی گنجائش ہی اس لیے نکالی جاتی ہے کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر قومی وحدت اور ملک وملّت کے بہترین مفاد میںسینیٹ کے امیدواروں کا انتخاب کریں ۔نیزاس میں وفاقی اکائیوں کے مفادات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، کیونکہ فیڈریشن یا وفاق اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے ، قومی اسمبلی میں صوبوں کے لیے نشستیں آبادی کے تناسب سے رکھی جاتی ہیں، جبکہ سینیٹ میں تمام وفاقی اکائیوں کومساوی نمائندگی دی جاتی ہے۔ ارکانِ اسمبلی صرف سیاسی مزارعین نہیں ہوتے کہ اپنی عقل ودانش ، فراست اور میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر صرف قیادت کے اشارۂ ابرو پر چلیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات قومی اسمبلی سے منظور کردہ بل کو سینیٹ میں ردّ کردیا جاتا ہے یا اس میں ترامیم تجویز کر کے یا بعض شقوں کو حذف کر کے قومی اسمبلی کو واپس بھیج دیا جاتا ہے تاکہ قانون میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔ اگرسیاسی جماعت کی قیادت ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں قائدِ ایوان یعنی وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا منشا ہی حرفِ آخر ہو تو پارلیمنٹ کی مجالسِ قائمہ بے اثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔ امریکی ایوانِ نمائندگان میں مختلف ریاستوں کے لیے نشستیں آبادی کے تناسب سے رکھی جاتی ہیں،کیلیفورنیا اسٹیٹ کی ایوانِ نمائندگان میں 53نشستیں ہیں، لیکن چھوٹی سے چھوٹی ریاست کی طرح سینیٹ میں اس کی دو ہی نشستیں ہیں ،جبکہ امریکی سینیٹ دنیا کی سب سے طاقت ور اور با اختیار سینیٹ ہے۔
امریکہ میں ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں صدارتی انتخاب ہوتا ہے،انتخابات کے فوراً بعد نومنتخب صدر کے لیے وائٹ ہائوس میں دفتر قائم کردیا جاتا ہے اور بجٹ بھی مختص ہوجاتا ہے تاکہ وہ اپنی کیبنٹ اور مختلف شعبوں کے سربراہان کا انتخاب کرسکے ۔ 20جنوری کو حلف برداری کے بعد وہ اپنی کیبنٹ ممبران کے نام سینیٹ کو بھیجتا ہے اور سینیٹ پوری چھان بین کر کے ان کی منظوری دیتی ہے یا ردّ کردیتی ہے۔20جنوری2021ء کو صدربائیڈن نے حلف اٹھایا اور منصب صدارت کوسنبھالا، لیکن ابھی تک سینیٹ سے اُن کے تمام کیبنٹ ممبران کی توثیق کا مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا۔ ایوانِ نمائندگان نے دو مرتبہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی قرارداد منظور کی ، لیکن دونوں مرتبہ سینیٹ نے اُسے ردّکردیا،چیک اینڈ بیلنس کے انہی کڑے معیارات سے گزر کر نظام میں توازن پیدا ہوتا ہے۔
یہاں ہم تھوڑی دیر کے لیے دولت کے چلن اور ارکانِ اسمبلی کی خرید وفروخت کے مسئلے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں ، ہم صرف آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اصولی بات کرتے ہیں ۔کرپشن ، ضمیر فروشی اور پیسوں کا لین دین ایک لعنت اوراخلاقی زوال کی انتہا ہے، اس کا حل تلاش کرنا ہماری پارلیمنٹ کا کام ہے ۔ عالی مرتبت جج صاحبان کامنصب آئین کی رُوح کے مطابق اُس کی تشریح اور قانون کا شفاف اطلاق کرناہوتاہے تاکہ کسی کے لیے انگلی اٹھانے کی گنجائش نہ رہے، نیز کرپشن کی تمام صورتوں کوکنٹرول کرنے اوراس کے ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے لیے کئی ریاستی ادارے بیک وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں ، ان میں نیب، انٹیلی جنس ادارے ،ایف آئی اے، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ ،سی آئی اے ، پولس وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب ادارے حکومت کے براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اگر ان سب کے ہوتے ہوئے ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں ،وفاقی وزراء کے بقول لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر بیٹھے ہوئے تھے تواتنی ثقہ معلومات کے بعد ان کو قانون کی گرفت میں لے لینا چاہیے تھا، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہوا ، نیز بعض وزراء کے بقول رقوم کی ادائی کا انتظام دبئی میں کیا گیا تھا،یہ سب کچھ جانتے ہوئے حکومتی ادارے حرکت میں کیوں نہ آئے،اس کا راز نامعلوم ہے ۔
کسی منصب کے لیے خفیہ رائے شماری کا فلسفہ یہی ہے کہ رائے دہندہ اظہارِ رائے میں آزاد ہو، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور اور اپنے ضمیرکو جوابدہ ہو،بشرطیکہ ضمیر زندہ ہواور فطرت سلیم ہو۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریفرنس کے جواب میں کہا:خفیہ بیلَٹ کی رازداری کا ہمیشہ کے لیے تحفظ ضروری نہیں ،اسی لیے ووٹ کی پرچی پربارکوڈ لگانے کی بات کی گئی ،اس سے رازداری کے سارے فلسفے کی نفی ہوجاتی ہے ، با اثر لوگوں اورحکومتِ وقت کو اس راز تک رسائی میں کوئی دقّت نہیں ہوگی اور طاقت ور حلقوں کی منشاکے خلاف ووٹ دینے پر انتقام کاجو خدشہ لاحق رہتا ہے،ووٹر اس سے بچ نہیں سکے گا، لہٰذاووٹ کی پرچی پر بارکوڈ کی حکمت سمجھ سے بالاتر ہے، راز کو تو راز ہی رہنا چاہیے ، سوائے اس کے کہ صاحبِ راز اپنی صوابدید پر خود اس کا انکشاف کرے،حدیث میں ہے:
’’حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں:(۱) نبی ﷺ نے مجھے ایک راز بتایا تومیں نے اس کے بعد وہ راز کسی پر افشاء نہیں کیا، مجھ سے میری والدہ اُمِّ سُلیم نے اس راز کی بابت پوچھاتو میں نے ان کو بھی نہ بتایا،(صحیح البخاری: 6289)‘‘۔
(۲)’’رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرے راز کو پوشیدہ رکھنا، تم مومن ہوگے، (اعتلال القلوب للخرائطی: 682)‘‘۔ ْمُطَرِّفِیْ نے کہا ہے:’’کریم شخص وہ ہے کہ اس کی محبت خالص رہے یا رشتۂ محبت ٹوٹ جائے، وہ (ہر حال میں )راز کی حفاظت کرتا ہے،(شُعَبُ الْاِیْمَان: 9051)‘‘۔
ہم مذہبی لوگ ہیں ، سینیٹر رضا ربانی لبرل سیکولر پارلیمنٹیرین اور سوشل ڈیموکریٹ ہیں، لیکن اپنے استدلال میں سینیٹ کا ادارہ قائم کرنے کی حکمت ومصلحت ، آئین کی روح کے مطابق اس کے متعلقہ آرٹیکلز کی تشریح انھوں نے احسن انداز میں کی،نیز کراچی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بھی اپنے موقف کو آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بہتر انداز میں بیان کیا ، سپریم کورٹ کی عالی مرتبت جج صاحبان اور فاضل اٹارنی جنرل بیرسٹر جاوید خان اخلاقی پہلوئوں پر زور دیتے رہے ، لیکن آئین وقانون کے دائرے میں ان کا استدلال مؤثر نہیں تھا۔

View : 633

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.