زعمِ پارسائی سے مراداپنی دانست میں اپنے آپ کو ایک روشن ضمیر، پاک بازاور راستیِ فکر کا حامل سمجھنا ہے ،اسی کو خبطِ عظمت بھی کہاجاتا ہے۔اس ذہنیت کا حامل شخص دلیل اور استدلال اور حق وباطل کے مسلّمہ معیارات سے صَرفِ نظر کرکے اپنے فریقِ مخالف کی ہر بات کو باطل سمجھ کر ردّکردیتاہے،انھیں پاپ سمجھتا ہے ، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے (۱): ’’کیا آپ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنی پارسائی کا دعویٰ کرتے ہیں ،بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے پارسابنادیتا ہے، (النسآء:49)‘‘،(۲):’’ پس تم اپنی پارسائی کا دعویٰ نہ کرو ،اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے، (النجم:32)‘‘۔ حدیث پاک میں ہے:’’زید بن ارقم بیان کرتے ہیں: میں تمہیں وہ دعا نہ بتاؤں جو رسول اللہ ﷺ ان کلمات میں کیا کرتے تھے: ’’ اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اوراُسے پاکیزہ فرما، کیونکہ آپ ہی کی ذات سب سے بہتر پاکیزگی فرمانے والی ہے، ( مسلم: 2722)‘‘۔
یہ زعمِ پارسائی انسان کے مزاج پر اتنا غالب آجاتا ہے کہ اس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو حق وباطل کا معیار سمجھنے لگتا ہے، اس کی غلطی پر مطلع کیا جائے تو طیش میں آجاتا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے : اللہ کا خوف کرو تو اس کا گھمنڈ اُسے گناہ پربرانگیختہ کرتا ہے، (البقرہ:206)‘‘،اسی خودستائی کی بابت شیخ سعدی نے کہا:
چہل سال عمر عزیزت گذشت مزاج تو از حال طفلی نہ گشت
ترجمہ: ’’تمہاری عمر عزیز کے چالیس سال گزر چکے ، لیکن تمہارا مزاج وہی لڑکپن والا ہے‘‘، یعنی چالیس سالہ تجربہ بھی تمہارے مزاج میں تبدیلی نہ لاسکا، بس ایک ہی روش پہ قائم رہے ،ہٹ دھرم رہے ، اپنی رائے مسلّط کرنے اوربرخود راستی کی کیفیت سے نکل نہ پائے ۔ الغرض زعمِ پارسائی میں مبتلا شخص ناقابلِ اصلاح ہوتا ہے، اصلاح پذیر نہیں ہوتا ، اپنے آپ کو حرفِ آخر سمجھتا ہے ، اسی کیفیت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے:
’’ابوامیہ شعبانی ابوثعلبہ خشنی کے پاس آئے اورقرآنِ کریم کی اس آیت کی بابت دریافت کیا: ’’اے مومنو!تم اپنی فکر کرو ، جب تم خود راہِ راست پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہارے لیے ضرر رساں نہیں ہے،(المائدہ:105)‘‘،انھوں نے کہا: بخدا ! میں نے اس کے بارے میں (کائنات کی )سب سے بڑی باخبر ہستی (یعنی رسول اللہ ﷺ )سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ (ہر حال میں) نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ،یہاں تک کہ جب (اصلاح ناممکن ہوجائے اور)تم دیکھوکہ بخیل رہنما بن چکا ہے ، خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے ،دنیا کو (آخرت پر)ترجیح دی جارہی ہے اورہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے ،تو پھراپنی اصلاح کی فکر کرو اورلوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دو،کیونکہ اب تمہارے پاس صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ،پس ( ایسے حالات میں دین پر قائم رہنا) آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں پکڑنے کی مانند ہے ،سو جو ایسے حالات میں نیکی پر کاربند رہے گا،تو اُسے اُس کے نیک عمل کا ثواب پچاس افراد کے برابر ملے گا، صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ!صلی اللہ علیک وسلم! (یہ پچاس گنا ثواب )ہمارے دور کے پچاس افراد کے برابر ہوگا یا اُس دور کے ،آپ ﷺ نے فرمایا: (اے میرے صحابہ! )تمہارے دورکے پچاس افراد کے برابرہوگا،(ترمذی:3058)‘‘۔
سو وزیر اعظم عمران خان بھی حقیقت پسند بننے کے بجائے اسی ’’زعمِ پارسائی‘‘میں مبتلا ہیں ، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں،مثلاً(۱): وہ اپنے مخالفین کے لیے کہتے ہیں:’’ان کے بچے تو ملک سے باہر رہ کر عشرتیں کر رہے ہیں ‘‘، یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کے اپنے بچے بھی تو اُسی برطانیہ میں قیام پذیر ہیں ، یہ تو اِس محاورے کی سچی تعبیر ہے :’’چھنْنِیْ لوٹے سے کہے: تم میں دو سوراخ ہیں‘‘،(۲)وہ اپنے مخالف سیاست دانوں کے لیے فرماتے ہیں:’’وہ محلّات میں رہتے ہیں‘‘، یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ بنی گالامیں ان کی رہائش گاہ کے اردگرد تین سو کنال کا رقبہ بتایا جاتا ہے،(۳) وہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہاں چھوٹے مجرم جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور بڑے آزاد پھر رہے ہیں ، لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کے دور میں کئی اسکینڈل آئے، مگر اُن کا عبرت ناک اور بے لاگ انصاف نہ ہوسکااور وہ کوئی ایسی عملی مثال پیش نہ کرسکے جو اُن کے لیے افتخار وامتیاز کا باعث ہوتی اور پھر یہ دعویٰ اُن پر سجتااور ان پر قول وفعل کے تضاد کی پھبتی نہ کسی جاتی، قرآن مجید میں ہے: ’’تم اُن لوگوں کو ہرگزعذاب سے بری نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر نازاں ہیں اور ایسے کاموں پر اپنی تعریف چاہتے ہیں جو اُنھوں نے کیے نہیں ، بلکہ اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے، (آل عمران:188)‘‘۔خود کو پارسا اور دوسروں کو پاپ سمجھنے والے ایسی ہی خوش فہم لوگوں کے بارے میں اطیب اسلم نے کہا:
اپنی پارسائی کا رعب ہم پر نہ ڈالیے! ہم سیاہ کاروں کو چھوڑیے ،خود کو سنبھالیے!
نیز کسی صاحبِ نظر نے کہا: پارسائی کا زعم ہے ان کو کہہ رہے ہیں گناہ گار مجھے
ایسا پاکیزہ اور مثالی کردار صرف محسنِ انسانیت ﷺ ہی کا تھا، ذیل میں ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
ترجمہ:(۱) رسول اللہ ﷺ غزوۂ بدر کے دن ہاتھ میں ایک چھڑی لیے مجاہدین کی صف بندی فرما رہے تھے، سواد بن غزِیَّہ کے پاس سے آپ کا گزر ہوا ،وہ صف سے آگے نکلے ہوئے تھے ، آپ ﷺ نے اُن کے پیٹ میں چھڑی سے ٹہوکا دیااور فرمایا: سواد! صف کی سیدھ میں ہوجائو، انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ! صلّی اللہ علیک وسلم! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے اوراللہ نے آپ کوسراپا عدل بناکربھیجا ہے، پس مجھے قصاص دیجیے، رسول اللہ ﷺ نے اُن سے فرمایا:قصاص لے لو!اس نے عرض کی: یارسو ل اللہ صلّی اللہ علیک وسلم! آپ نے جب مجھے ٹہوکا دیا تو میرے بدن کے اُس حصے پر قمیص نہیں تھی، آپ ﷺ نے اپنے بدنِ مبارک کے اُس حصے سے چادر ہٹائی اورفرمایا: اب قصاص لے لو، سواد آگے بڑھ کر آپ سے گلے ملے اور آپ کے بدنِ اطہر کے اُس حصے پر بوسا دیا، آپ ﷺ نے فرمایا: سواد! تم نے ایسا کیوں کیا؟، انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلّی اللہ علیک وسلم! (معرکۂ کارزار گرم ہے اور) آپ کو معلوم ہے میری موت کا وقت قریب ہے اور میری شہادت کا منظر سامنے ہے ، تو میں نے چاہا :زندگی کے آخری لمحات میں میرا بدن آپ کے بدن سے مَس ہوجائے ، تو رسول اللہ ﷺ نے اُن کے لیے خیر کی دعا فرمائی، (مَعْرِفَۃُ الصَّحَابَہْ لِاَبِیْ نُعَیْم:3550)‘‘۔ آج کی متمدن دنیا میں بھی حالتِ جنگ میں بنیادی حقوق معطل ہوجاتے ہیں، لیکن آپ ﷺ نے عین میدانِ جنگ میں بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑااور بنیادی حقوق کو معطل نہیں فرمایا۔
(۲)عبداللہ بن جبیر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک چھڑی سے ایک شخص کے پیٹ میں ٹہوکا دیا، انھوں نے عرض کی: آپ نے مجھے درد پہنچایا ہے ، پس مجھے قصاص دیجیے، آپ نے وہی چھڑی اُسے تھمادی اور فرمایا: قصاص لو!، انھوں نے آپ کے جسم مبارک پر بوسا دیا اور عرض کی: میں آپ کو اس امید پرمعاف کرتا ہوں کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں گے، (مَعْرِفَۃُ الصَّحَابَہْ لِاَبِیْ نُعَیْم:4052)‘‘۔
(۳)عبداللہ بن ابی بکر بیان کرتے ہیں:غزوۂ حنین میں شریک ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کے نزدیک جانے کی کوشش کی ،اس وقت اس نے ایک موٹا جوتا پہن رکھا تھاکہ اچانک اس کی اونٹنی رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی سے ٹکرائی اور جوتے کا کنارہ رسول اللہ ﷺ کی پنڈلی مبارک سے ٹکراگیا،اس کی وجہ سے آپ کو شدید تکلیف ہوئی، آپ نے میرے پائوں پر کوڑا مارااور فرمایا: تونے مجھے تکلیف پہنچائی ہے تو مجھ سے دور ہوجا، سووہ مڑ گئے ، پھر جب صبح ہوئی تو اچانک اسے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے تلاش فرمارہے ہیں ،اس نے عرض کی: حضور! میںحاضر ہوں ، (اس نے سوچا:)کل اُس نے رسول اللہ ﷺ کے پائوں کو تکلیف پہنچائی تھی اور وہ انتظار میں تھا (کہ اس کی باز پرس ہوگی)، آپ ﷺ نے فرمایا: کل جب تم نے میرے پائوں کو تکلیف پہنچائی تو میں نے تمہارے پائوں پر کوڑا مارا تھا، سو میں نے تمہیں اس لیے بلایا تاکہ تمہیں اس کا بدلہ دوں ، پس (قصاص لینا تو درکنار )آپ نے قصاص کے طور پراُسے اسّی بھیڑیں عطا فرمائیں، (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَادْ،ج:5،ص:390)‘‘۔
الغرض ہم سب خطا کا پیکر ہیں، پارسا نہیں ہیں، کسی کی خطائیں کم اور کسی کی زیادہ ہوں گی ، کسی کے عیب کم اور کسی کے زیادہ ہوں گے، لیکن کسی کا گفتار وکردار مثالی نہیں ہے، پس عُجب وتفاخر ، نَخوت وغرور اور کِبر واستکبار ، دعوائے پارسائی اور زَعمِ پارسائی ہمیں زیب نہیں دیتا ، کردار کے اعلیٰ نمونوں کی مثالی ہستیاں(Ideals) جو گزریں، ہم اُن کے پاسنگ بھی نہیں ہیں ، اُن کی گَردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے ، اُن کی پرچھائوں بھی نہیں ہیں ، ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی عادت ڈالنی چاہیے ، یہ محض فریبِ نفس اور مکرِ شیطاں ہے کہ ہم اپنے اندر جھانکنے کے بجائے صرف اور صرف دوسروں کے عیوب پر نظر ڈالتے ہیں ، اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور زعمِ پارسائی میں اس کا لطف اٹھاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے : ’’اورتم (دوسروں کی کمزوریوں کی)ٹوہ میں نہ لگ جاؤ، (الحجرات:12)‘‘اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اور ایک دوسرے کے پوشیدہ احوال کی سن گن نہ لو اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو،(بخاری: 5143)‘‘، بہادر شاہ ظفر سے بادشاہت سلب ہوئی ، جلاوطنی اور قید کے تجربات کے بعد انہوں نے کہا:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر،رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
سو ہم میں سے ہر ایک کے لیے بہتر یہی ہے کہ دوسروں کی خامیوں پر حَظّ اور لطف اٹھانے کے بجائے کبھی کبھار اپنے آئینۂ دل میں جھانک لیاکریں، اپنے عیوب کو دیکھیں تو شاید دوسرے خود سے بہتر نظر آئیں ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:’’ کِبر، حق کے انکار اور لوگوں کو اپنے مقابل حقیر جاننے کا نام ہے، ( مسلم:91)‘‘۔