اَعرابی: عربی میں دیہات میں رہنے والے کو’’الف‘‘ کے زبر کے ساتھ ’’اَعرابی‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’اَعراب‘‘ ہے، عرب کے باشندے کو ’’عُرْب‘‘ ،’’عَرَبی‘‘ اور’’عَرَب‘‘کہتے ہیں،عربی میں جب عبارت کے لیے ’’تعریب‘‘اور ’’اِعراب‘‘بولاجائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں:’’عبارت یا کلام کے آخرکوعامل کے مطابق حرکت لگانا ،جس حرکت (زبر ،زیر ،پیش ،سکون) یا حر ف(الف، وائو، یاء) کی وجہ سے مُعرَب کا آخر تبدیل ہوجائے ،اسے ’’اِعراب‘‘کہتے ہیں۔جس عربی عبارت پر حرکات اوراِعراب نہ لگے ہوں،اس کو وہی صحیح پڑھ سکتا ہے ،جو عربی گرامر یعنی صرف ونحو پر عبور رکھتا ہو،ورنہ معنی تبدیل ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
بَدَوِی: صحرانشین کو کہتے ہیں اور ’’بَدُّو‘‘کے معنی ہیں: عرب کا گنْوار،خانہ بدوش ، جنگلی وغیرہ۔
غَزوَہ: ’’غ‘‘ کے زبر کے ساتھ غَزوہ کے معنی ’’جنگ ‘‘کے ہیں، سوشل میڈیا پر ایک تجربہ کار کالم نگار اور تجزیہ کار ’’غ‘‘ کے پیش کے ساتھ ’’غُزوۂ ہند‘‘ بول رہے تھے، یہ غلط ہے۔
سَرِیّہ: فوج کا چھوٹا دستہ ، جسے جدید فوجی اصطلاح میں ’’کمپنی‘‘کہاجاتا ہے، میڈیا پر بعض حضرات اسے ’’سَرْیَہ‘‘بولتے ہیں، یہ غلط ہے۔
گرامر کے لحاظ سے عربی زبان جتنی جامع ہے ، شاید ہی دنیا کی کسی اور زبان میں اتنی جامعیت ہو، لیکن بہرصورت انگریزی میں بھی اعرابی علامات استعمال ہوتی ہیں ،اس کے لیے انگریزی میں متعدد الفاظ آتے ہیں،مثلاً: Conjugation، Punctuation ،To Vowelizeاور Diacritical Marksکی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں،اسی طرح اردو میں بھی اعرابی علامات موجود ہیں، لیکن چونکہ یونیورسٹی کی سطح تک ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو گرامر مکمل نہیں پڑھائی جاتی، اس لیے نثری عبارت اور شعر پڑھنے میں تلفظ کی غلطیاں بہت سننے کو ملتی ہیں، مثلاً: امام احمد رضا قادری کی نعت کا یہ شعرہے:
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے ،کہ گمانِ نقص، جہاں نہیں
یہی پھول ،خار سے دور ہے، یہی شمع ہے، کہ دھواں نہیں
ایک نعت خواں پہلے مصرع میں ’’نقص‘‘ کے نیچے اضافت کی زیر لگاکر پڑھ رہے تھے،جس سے معنی بدل جاتا ہے ، شعر میں بعض جگہ سکتہ کرنا پڑتا ہے، جیسے علامہ اقبال کا شعر ہے:
تیری نگاہِ ناز سے، دونوں مراد پا گئے
عقل ،غیاب و جستجو، عشق، حضور و اضطراب
ایک صاحب ’’عقل ‘‘اور’’عشق‘‘کے نیچے اضافت کی زیر لگاکر پڑھ رہے تھے، یہ غلط ہے، بلکہ عقل اور عشق کے بعد سکتہ کرکے پڑھنا چاہیے۔
اِمارت: ’’الف‘‘ کی زیر کے ساتھ یہ لفظ ’’اِمارَت‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں:’’امیر ہونا، سردار ہونا، حاکم ہونا ، والی ہونا ‘‘، ’’امیرالمؤمنین‘‘ اسی سے ہے،ایک صاحب’’ متحدہ عرب اَمَارات‘‘ بول رہے تھے،یہ غلط ہے، ’’الف‘‘ کے زبر کے ساتھ ’’اَمَارت‘‘ کے معنی ہیں: ’’علامت،نشانی‘‘۔
گُنجلک: ’’گ‘‘ کے پیش کے ساتھ ’’گُنجلَک ‘‘کے معنی ہیں:’’سِلوَٹ،شِکَن، گِرہ، گانٹھ،الجھن‘‘۔ ایک صاحب ’’گ‘‘ کے زبر کے ساتھ ’’گَنجلَک‘‘ بول رہے تھے،یہ غلط ہے۔
اُتَّم: ’’الف‘‘ کے پیش اور’’ت‘‘ کی تشدید کے ساتھ یہ سنسکرت کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں:’’افضل، عمدہ ، سب سے بڑھ کر‘‘، جبکہ ’’الف ‘‘اور’’ت‘‘ کے زبراور ’’م‘‘ کی تشدید کے ساتھ ’’اَتَمّ‘‘عربی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’کامل ترین، جامع، کسی چیز کے تمام افراد پر مشتمل‘‘ اور ’’بدرجۂ اَتَم‘‘ کے معنی ہیں :’’کامل ترین درجے میں‘‘، جیسے :فلاں شخص میں یہ صفت ’’بَدرجۂ اَتَمّ‘‘ موجود ہے۔
تَلپٹ: ’’ت‘‘اور ’’پ‘‘ کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ’’تَلپَٹ‘‘ ہے،اس کے معنی ہیں:’’ الٹایا اوندھا کیا ہوا، زیر وزبر ، تہہ وبالا وغیرہ‘‘، یہ سنسکرت کا لفظ ہے، ایک صاحب ’’ت‘‘ کی زیراور’’پ‘‘کے زبر کے ساتھ ’’تِلپَٹ‘‘ بول رہے تھے، یہ درست نہیں ہے۔
بگٹُٹ: یہ لفظ ’’ب‘‘ کے زبر اور ’’ٹ‘‘کے پیش کے ساتھ (گھوڑے سے متعلق )بگٹُٹ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’بہت تیز ، بے تحاشا، سرپٹ دوڑانا، وغیرہ‘‘، ایک صاحب نے ’’بھ‘‘ کے ساتھ ’’بھگٹُٹ‘‘ لکھا ہے ،یہ درست نہیں ہے۔
خطَرْناک: ’’خَطَرْ‘‘ کے معنی ہیں:’’اندیشہ، خوف ،دشواری ،آفت، قدر، عظمت، بزرگی‘‘ اورفارسی میں ’’ناک‘‘ کے معنی ہیں: ’’بھرا ہوا، آلودہ، مالک، صاحب وغیرہ‘‘اور ’’خَطرناک‘‘ کے معنی ہیں: ’’ خطرے سے بھرا ہوا ہو، خطرہ پیدا کرنے والا،خوفناک، ڈرائونا، وغیرہ‘‘۔ یہ مرکّب لفظ بطورِ مفرد استعمال ہوتا ہے ، اسی وزن پر دیگر الفاظ بھی ہیں ، الم ناک، خوف ناک، نم ناک ،کرب ناک، شرم ناک وغیرہ الفاظ آتے ہیں۔جبکہ وزیر اعظم کا ایک کلپ سننے کو ملا، وہ فرمارہے تھے: ’’میں سڑکوں پر آیاتو بہت خطرِناک ہوں گا‘‘، یعنی انھوں نے لفظِ ’’خَطر‘‘ کو اضافت کی زیر کے ساتھ ’’خطرِ ناک‘‘بولا، خدا جانے اُن کی ناک سے کونسی آفت یا خطرہ پیدا ہوگایا وہ کسی دوسرے کی ناک کے لیے خطرہ بنیں گے۔
بیخ کَنی: یہ فارسی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’نیست ونابود کرنے کا عمل، نقصان پہنچانا، کسی چیز کو جڑ سے اکھیڑ دینا ‘‘، دراصل فارسی میں ’’کَندَن‘‘کے معنی ہیں: ’’کھودنا‘‘ ،اسی سے ’’کان کَنی‘‘ آتا ہے، یعنی زمین کھود کر مختلف معدنیات نکالنا،جیسے: سونا، تانبا،لوہا ،کوئلہ وغیرہ۔ ایک صاحب سوشل میڈیا پر ’’ک‘‘ کے پیش کے ساتھ ’’بیخ کُنی‘‘بول رہے تھے، یہ درست نہیں ہے۔
آزاد مَنِش: سوشل میڈیا پر ایک صاحب ’’ن‘‘ کے جزم کے ساتھ ’’آزاد مَنْش‘‘ بول رہے تھے،یہ غلط ہے۔ ’’ن‘‘ کی زیر کے ساتھ ’’مَنِشْ‘‘ فارسی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’عادت ،مزاج ، خِلقت‘‘ ، پس صحیح لفظ ہے: ’’آزاد مَنِشْ‘‘۔
دست نِگر: ’’دست‘‘ کے معنی ’’ہاتھ ‘‘ اور ’’نِگر‘‘ کے معنی ہیں: ’’دیکھنے والا، دیکھ‘‘، یہ لفظ’’ت‘‘کے سکون کے ساتھ ’’دَسْت‘‘اور ’’نِگر‘‘ سے مرکّب ہے، مگر مفرد کے طور پر استعمال ہوتا ہے ،اس کے معنی ہیں: ’’حاجت مند، محتاج، دوسروں کے سہارے زندگی گزارنے والا‘‘۔ ایک ماہر تجزیہ کار ’’دست‘‘ کی ’’ت‘‘ کے نیچے اضافت کی زیر لگاکر ’’دستِ نگر‘‘ بول رہے تھے، یہ درست نہیں ہے۔
علامہ اقبال نے کہا ہے:
موسیٰ زہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تو عین ذات می نِگری درتبسّمی
ترجمہ: ’’موسیٰ علیہ السلام صفاتِ باری تعالیٰ کے ایک جلوے کی تاب نہ لاسکے اور ہوش کھوبیٹھے، یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آپ معراج کے موقع پر تبسم آمیز کیفیت میں ہوش کے عالَم میںذاتِ باری تعالیٰ کو دیکھتے رہے‘‘۔
کسی نے سوشل میڈیا پر یہ اشعار پڑھ کر ڈالے ہیں، اِن میں تلفظ کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے:
خوبصورت لفظ ،جو آئے عرب، ایران سے
ان کو ہندوستان نے، اپنا لیا، جی جان سے
اہلِ دانش کی رہی جب تک نظر، ہر لَفْظ پر
اپنی اپنی ہی جگہ، قائم رہے زیر و زبَر
جب ادھورے علم کا، اردو پہ قبضہ ہوگیا
’’مَدرَسہ‘‘ جس کا تلفظ تھا، ’’مَدَرْسَہ‘‘ ہوگیا
توتلے ہکلے چلا لیتے ہیں جیسے اپنا کام
مطمئن ہیں ناسمجھ ’’اِنعام ‘‘کو کہہ کر’’ اِنَام‘‘
جَہل کے دریا میں، اہلِ علم وفن بہنے لگے
انتہا یہ ہے، کہ ’’سَر‘‘ کو لوگ’’ سِر‘‘ کہنے لگے
جب زباں سے، اَن پڑھوں کی آشنائی ہوگئی
جس کو کہتے تھے ’’دَوا‘‘ ،وہ بھی ’’دوائی‘‘ ہوگئی
کوئی جب ’’اَسرار‘‘ سے ’’اِسرار احمد‘‘ ہوگیا
اور تھا مقصد مگر، کچھ اور مقصد ہوگیا
ایسے ویسے نے تو’’ رِفعت ‘‘کو بھی’’ رَفعت ‘‘کردیا
نام رکھا تھا ’’مَسَرّت‘‘ اور’’ مُسَرَّت‘‘ کردیا
’’شَمَع‘‘ کو ناتجرِبہ کاروں نے، کر ڈالا ’’شَما‘‘
’’نَفَع ‘‘کو بازار والوں نے بنا ڈالا’’ نَفا‘‘
اچھے خاصے لفظ کا، اک حرف آدھا کردیا
جو زیادہ تھا، اُسے ہم وزنِ ’’زَادَہ‘‘ کردیا
لگ رہا ہے اب زبر سے زیر پر، سارا دماغ
جن کو ہونا تھا’’ چَراغ ‘‘،اب ہوگئے ہیں وہ ’’چِراغ‘‘
ہورہا ہے خَتْم،اب اردو زباں کا بانکپن
’’وَزْن‘‘ کواب تو، پڑھے لکھے بھی کہتے ہیں’’ وَزَن‘‘
لوگ ظاہر کر رہے ہیں، نامکمل علم وفن
’’شَہْر‘‘ کو کہہ کر’’ شَہَر‘‘اور’’ اَمْن‘‘ کو کہہ کر’’ اَمَن‘‘
کم پڑھے لکھوں نے ،سب کچھ اُلٹا سُلٹا کردیا
’’تجرِبَہ ‘‘پڑھنا نہیں آیا،’’تجُرْبَہ‘‘ کردیا
کیا کہا جائے، وہاں کیا تھا، یہاں کیا ہوگیا
’’مُدَّعَا‘‘ آیا عرب سے، اور’’ مُدّا‘‘ ہوگیا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی، جَہالت کی مثال
جس کو کہتے تھے ’’وَبال ‘‘،اب ہوگیا ہے وہ’’ بَوَال‘‘
ایسے ایسے لوگ بھی ہیں، باہنر اور باکمال
راہ میں’’ مَشعَل ‘‘جلاتے ہیں، تو کہتے ہیں’’ مَشَال‘‘
مطمئن ہیں اچھے اچھے ،’’خَتْم ‘‘کو کہہ کر’’ خَتَم‘‘
’’نَرْم‘‘ کو کہہ کر’’ نَرَم‘‘، اور ’’گَرْم‘‘ کو کہہ کر’’ گَرَم‘‘
ہے ’’وَقار‘‘اور لوگ کہتے ہیں، جو اس کو’’ وِقار‘‘
ایسے لوگوں سے بھی اردو ،ہورہی ہے شرمسار
اصل عربی لفظ ’’مَدْرَسَہ‘‘ہے،پڑھنے کی جگہ، اردو والے تخفیف کے ساتھ ’’مَدَرْسَہ‘‘ بولتے ہیں، لیکن اہلِ پنجاب نے اسے ’’مَدرِسَّہ‘‘ بنادیا۔’’الف‘‘ کی زبر کے ساتھ ’’اَسْرَار‘‘ ،سِرّ کی جمع ہے ،اس کا معنی ہے: ’’راز‘‘،جبکہ ’’الف‘‘ کی زیر کے ساتھ ’’اِسْرَار‘‘ کے معنی ہیں: ’’خوش کرنا، بھید چھپانا ، بھید ظاہر کرنا‘‘۔’’و‘‘کے زبر کے ساتھ ’’وَقار‘‘ کے معنی ہیں: ’’عزت،عظمت‘‘ ، عام طور پر لوگ اسے ’’و‘‘ کی زیر کے ساتھ ’’وِقار‘‘ بولتے ہیں،یہ غلط ہے۔