بیرونی قرضوں کی ریکارڈ ادائی

قرض ملکی و قومی ہویا ادارہ جاتی و انفرادی ہو،اگرچہ بعض حالات میں ناگزیر ہوجاتا ہے،لیکن بہرحال یہ عزت ووقار کا باعث نہیں ہے، بلکہ بے توقیری کی علامت ہے،رسول اللہ ﷺ قرض سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، حدیث مبارک میں ہے :
(۱) ’’ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں فکرِ (پریشاں)، غم، عَجز، سستی، بزدلی ، بخل، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، (بخاری: 6369)‘‘ ۔ (۲):’’رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں داخل ہوئے اورابواُمامہ انصاری کو وہاں دیکھ کر فرمایا: ابواُمامہ! کیا وجہ ہے کہ نماز کا وقت نہیں ہے اور تم مسجد میں بیٹھے ہو، انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ! ہجومِ افکاراور قرضوں نے مجھے گھیر رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے دعائیہ کلمات نہ بتائوں کہ (ان کی برکت سے) اللہ تمہیں ان غموں سے نجات دیدے، انہوں نے عرض کی :یارسول اللہ! ضرور بتائیے!آپ ﷺ نے انھیں صبح وشام پڑھنے کے لیے جو دعائیہ کلمات تعلیم فرمائے ، ان میں یہ بھی تھے:’’اے اللہ! میں قرض کے غلبے اور لوگوں کے تسلّط سے تیری پناہ چاہتا ہوں، ابواُمامہ بیان کرتے ہیں: میں نے یہ دعاپڑھنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے غموں کو بھی دور فرمادیا اور میرے قرض کی ادائی بھی مقدر فرمادی، (ابودائود: 1555،خلاصہ)‘‘۔(۳)’’آپ ﷺ نے فرمایا:میں کفر اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، ایک آدمی نے عرض کی: آپ نے قرض کوکفر کے برابر ٹھہرایا،تو آپ ﷺنے فرمایا: ہاں، (نسائی:5474)‘‘۔
یہ عنوان ہم نے اس لیے قائم کیا ہے کہ وزیرِ اعظم جنابِ عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’پاکستان کی تاریخ میں ہم ڈھائی سال میں ریکارڈ 6ہزار ارب روپے قرضوں کی قسطوں کی مد میں دے چکے ہیں، آج تک کسی حکومت نے اتنے قرضے واپس نہیں کیے،نیزبیس ارب ڈالر بھی واپس کرچکے ہیں‘‘۔اگر ہم ڈالر کی قیمت ایک سو ساٹھ روپے لگائیں تو بیس ارب ڈالرکے تین ہزار دو سو ارب روپے بنتے ہیں، اس طرح گزشتہ ڈھائی سال میں ادا کردہ قرض کی مجموعی رقم نوہزار دو سو ارب بنتی ہے۔
قرض ادا کرنا اورقرض کے بوجھ میں تخفیف کرنا بلاشبہ قابلِ قدر بات ہے، بشرطیکہ اس عرصے میں ہم نے قومی سطح پراپنے کل اخراجات کے مقابلے میں زیادہ آمدنی حاصل کی ہواور بچت کرکے قرض ادا کیے ہوں، لیکن درحقیقت صورتِ حال یہ نہیں ہے،بلکہ ان ڈھائی سالوں میں ہم نے ماضی کے تمام ادوار کے مقابلے میں زیادہ قرض لیے ہیں اور اس ادائی کے باوجود مجموعی طور پر ملک پر داخلی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ اور مالی ذمے داریوںمیں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کو زحمت دی کہ 30جون2018کو ملک پر قرضوں کا بوجھ کتنا تھا اور 31دسمبر 2020کو کتنا تھا تاکہ یہ واضح ہو کہ موجودہ حکومت کے ڈھائی سالہ دور میں مذکورہ بالا ادائی کے باوجود ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھا ہے یا اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے، انھوںنے مندرجہ ذیل معلومات فراہم کیں اور کہاکہ میں یہ اعداد وشمار اپنی ذمے داری پر آپ کو دے رہا ہوں،ان کے بتائے ہوئے تقابلی اعداد وشمار حسبِ ذیل ہیں:
30جون 2018کو ملک پر کل بیرونی قرض 95.26ارب ڈالر تھا، نیز مجموعی ملکی وبیرونی قرضے اورمالی ذمے داریاں 29879ارب روپے تھیں، جبکہ 31دسمبر2020کو کل بیرونی قرض 115.86ارب ڈالر تھا اور مجموعی ملکی اور بیرونی قرضے اور ذمے داریاں 44979 ارب روپے تھیں۔اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں وزیر اعظم کی بیان کردہ مذکورہ بالا ادائی کے باوجود غیر ملکی قرضوں میں 20.6ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ،نیز ملکی اور بیرونی قرضوں اورمالی ذمے داریوں کا مجموعی بوجھ 15100ارب روپے ہوگیا، یعنی وزیرِ اعظم کی بیان کردہ ادائی کے باوجود گزشتہ ڈھائی سال میں ملک پر مجموعی طور پر مزید 15100ارب روپے کامزید بوجھ پڑ گیاہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہم نے گزشتہ ڈھائی سال میں مجموعی طور پر نوہزار دوسو ارب روپے کاقرض قومی بچت کر کے ادا نہیں کیا ،بلکہ مزید قرض لے کریہ رقم ادا کی ہے اور اپنے قومی اخراجات چلانے کے لیے اس کے علاوہ بھی قرض لیے ہیں ،جن کی مقدار چھ ہزار نو سوارب روپے بنتی ہے اور اس کامجموعہ پندرہ ہزار ایک سو ارب روپے ہے۔
پس موجودہ حکومت کو داخلی اور خارجی قرضوں کے بوجھ کے اعتبار سے ملک جس حال میں ملا تھا، اب ڈھائی سالہ حکومت کے بعد ملکی حالت اُس سے بھی بدتر ہے۔الغرض ہمارے ماضی کے حکومتی شعار اورحالیہ ڈھائی سالہ شعار میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے، بس مزید قرض لے کر اُس میں سے کچھ پچھلا قرض اور سود کی قسطیں ادا کردی گئی ہیں اورایسا بھی نہیں ہے کہ صرف قرض کی واجب الادا اقساط اور سودی اقساط کے برابر نیا قرض لیا گیا ہے، بلکہ نیا قرض ان دونوں مدّات کے مجموعے (نوہزا ر دو سو ارب روپے)سے چھ ہزار نو سو ارب روپے زیادہ ہے ، جبکہ حکومت مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نے بجلی اور موٹرویز کے شعبے میں نئے منصوبے بنائے تھے، جبکہ برسرِ زمین منصوبوں کے حوالے سے موجودہ حکومت کا کھاتہ خالی ہے ،واللہ اعلم بالصّواب۔
البتہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ قومی معیشت جمود سے نکل آئی ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے، برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے، صنعتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ، سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے، قومی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ماحول انتہائی سازگار ہے۔ ہماری دعا ہے کہ حکومت کے یہ دعوے سوفیصد درست ثابت ہوں۔ہم نے ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان سے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھی ہیں ،اُس کا ایک سبب یورپین یونین میں GSP کی رعایت ہے ، نیز ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ اور کورونا کا بحران ہے،پس معلوم ہوا کہ عالمی سطح پر کورونا کے بحران سے ہماری برآمدات کے لیے یہ خیر کی صورت برآمد ہوئی ہے،جی ایس پی کی تشریح درج ذیل ہے:
’’درآمدات میں ترجیحات کا وہ عمومی نظام جس میں پسماندہ یا ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات کو یورپین یونین میں درآمد کرنے کے لیے کسٹم ڈیوٹیز میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے ‘‘۔ظاہر ہے کہ اس سے ہمارے برآمد کنندگان کو یورپین یونین کی مارکیٹ میں تجارتی مسابقت میں آسانی ہوجاتی ہے، برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ان برآمدی مصنوعات پر حکومتِ پاکستان جو جنرل سیلز ٹیکس لیتی ہے، اُسے بھی ان برآمد کنندگان کو واپس کردیا جاتا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ میں ان کی مسابقت کی استعداد بہتر ہو۔
لیکن حقیقی معنی میں ملکی اور قومی سطح پر داخلی وبیرونی قرضوں اور مالی ذمے داریوں میں روز بروز بڑھتے ہوئے بحران سے ہم صرف اُسی صورت میں نجات پاسکتے ہیں کہ جب ہمارے قومی محصولات ہمارے قومی اخراجات سے زیادہ ہوں اور ہم بچت کر کے بتدریج قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے سالانہ بجٹ میں ہمارے مجموعی سالانہ حکومتی مصارف کا تخمینہ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مقابلے میں کم ہے اور ہمیں مصارفِ جاریہ کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں جو بھی حکومت آئے گی ،اُسے اسی بحران کا سامنا ہوگا، ماسوا اس کے کہ ہم اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے کم کرنے میں کامیاب ہوجائیں، مگر سرِدست ایسا کرنابھی ممکن نہیں ہے۔ بین الاقوامی حالات ، بھارت سے شدید تنائو ،افغانستان اورمقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کی وجہ سے ہم اپنے دفاعی بجٹ میں تخفیف نہیں کرسکتے ،نیز داخلی وبیرونی قرضوں کی واجب الادا اقساط اور سودی واجبات میں تخفیف بھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم بین الاقوامی فورموں پر یہ کہتے رہے ہیں کہ ترقی یافتہ اقوام ، ترقی پذیر اور پسماندہ اقوام کے واجب الادا قرضے معاف کردیں، کیونکہ وہ ان اقوام کا استحصال کرتے رہے ہیں، لیکن اس کی پزیرائی کہیں سے بھی نہیں ہورہی،صرف اتنا ہوسکا ہے کہ کورونا کے عروج کے زمانے میں واجب الادا قرضوں کی اقساط کی ادائی محدود عرصے کے لیے مؤخر کردی گئی تھی۔ ہمارے وزیر اعظم کے بار بار اصرار کے باوجود کوئی بھی عالمی طاقت یا عالمی مالیاتی فورم یعنی آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک ، ایشین ڈویلپمنٹ بنک وغیرہ ان قرضوں کو کلی یا جزوی طور پرمعاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
موجودہ یا ماضی کی حکومتوں کا ایک دوسرے کو ملامت کرنا سیاسی کھیل کا حصہ ہے ، لیکن یہ مسئلے کا سنجیدہ حل نہیں ہے۔ قرضوں کا مسئلہ انتہائی گھمبیر ہے ،ہم خطرے کی لائن پر کھڑے ہیں ، یہ قومی ،ملکی اور ملّی مسئلہ ہے ، اس کے لیے ماہرینِ معیشت ، قومی زُعماء اور سیاسی قائدین کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے ، اہلِ ثروت ، صنعت کاروں اور تاجروں کو بھی اس کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ اس مصیبت سے نکلنے کے لیے اجتماعی دانش سے کوئی تدبیر اور حکمتِ عملی مرتّب کی جاسکے۔ ایک قومی میثاقِ معیشت کی از حد ضرورت ہے، کوئی بھی حکومتِ وقت اکیلے مشکل فیصلے نہیں کرسکتی ، کیونکہ حزبِ اختلاف کا دبائو ہوتا ہے، نیز معاشرے کے زیریں طبقات پہلے ہی معاشی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے ہمیں چھ ارب ڈالرتین فیصد شرحِ سود پر دیے ، لیکن ان میں سے کچھ واپس کرنے کے لیے ہمیں بھاری شرحِ سود پر چین سے قرض لینا پڑا،اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ بین الاقوامی تعلقات میں دوست ممالک کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ، اقوام وممالک کے تعلقات دائمی طور پر ایک ہی سطح پر نہیں رہتے ، بلکہ یہ تعلقات مختلف ممالک کے قومی اور بین الاقوامی مفادات اور ترجیحات کے تابع ہوتے ہیں ۔کورونا کی وبا کے عروج کے زمانے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کافی حد تک گر چکی تھیں ، پسماندہ اور ترقی پذیر اقوام پر توازنِ ادائیگی کے دبائو میں کچھ بہتری آئی تھی، لیکن اب ان قیمتوں کا گراف دوبارہ بتدریج بلندی کی طرف جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں توازنِ ادائیگی پر دبائو مزید بڑھ سکتا ہے۔اس عرصے میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے ماضی کے مقابلے میں زرِ مبادلہ کی ترسیل میں اضافہ خوش آئند بات ہے اور اسے ہم حکومت کی خوش قسمتی پر محمول کرسکتے ہیں۔ اگرچہ بعض ماہرین بتاتے ہیں کہ شرقِ اوسط کے ممالک میں ملازمتیں ختم ہونے پر بعض پاکستانیوں کو اپنے اثاثوں سمیت واپس آنا پڑ رہا ہے ،لہٰذا اس کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔ اب پاکستانیوں کے لیے بیرونِ ملک ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرنا حکومتی ماہرین کی ذمے داری ہے ۔

View : 661

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.