حکمرانی تدبّر ،فراست ،حکمت ، اپنے پیروکاروں سے ملائمت اور مخالفین سے نہ چاہتے ہوئے بھی مفاہمت و مطابقت کانام ہے۔ مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد انتخابی مہم کے غُبار اور خُمار کو ایک طرف رکھ کر فضا کو ٹھنڈا کرکے آگے بڑھنے کا نام ہے، ہرقسم کے شوروغوغا ، تصادم ،فساد اور ارتعاش سے صرف اپوزیشن کو فائدہ پہنچتا ہے۔ماضی میں ہم تابعِ فرمان جمہوریت کے تجربے سے گزرتے رہے ، یہ نظام اس مفروضے پر قائم تھا کہ سیاست دان غیر ذمے دار ہوتے ہیں، حُبُّ الوطنی اور قومی مفادات کی اصل محافظ مقتدر ہ ہے، لہٰذا سیاست دانوں پر مکمل بھروسا نہیں کیا جاسکتا، یہی سوچ جمہوری قیادت اور مقتدرہ کے درمیان بے اعتمادی کا سبب رہی اور دوریاں پیدا ہوتی رہیں ۔
پھر 2011سے لیفٹننٹ جنرل (ر)احمد شجاع پاشا نے بندوبستی جمہوریت کا بیج بونا شروع کیا ، ظاہر ہے یہ ایک فرد کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، یقینا مقتدرہ کی اجتماعی سوچ اس کے پیچھے کارفرما ہوگی۔ چنانچہ 30اکتوبر2011کو مینارِ پاکستان میں اس تجربے کاآغاز ہوا، میوزک ، رقص ، مردوزن کا اختلاط اور برگر کلاس کے لیے دلچسپی کا سامان اس کے اجزائے ترکیبی تھے۔یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ جنابِ عمران خان کی کرشماتی شخصیت اس نظام کی مقبولیت کے لیے اثاثہ ثابت ہوگی۔ اسی تسلسل میں2014کا طویل دھرنا ، عالَمِ غیب سے پاناما کا نزول ہوا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر چنیدہ افراد پر مشتمل جے آئی ٹی قائم ہوئی اورآٹھ کارٹن پر مشتمل تحقیقاتی موادتیار کیا گیا۔ اس تاریخی کارنامے کو انجام دینے والے سپریم کورٹ کے ایک عالی مرتبت جج صاحب کے ریمارکس کے مطابق ہیرے تھے، لیکن پھر یہ بھی کام نہ آئے اور عدلیہ کی عالمی تاریخ میں ایک منتخب وزیر اعظم کی معزولی اور مستقل نا اہلی کے لیے دبئی کے اقامے کو جواز بنایا گیا، اس کا آج تک تمسخر اڑایا جارہا ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا تھا: ’’ نااہل قرار دینے کے لیے ہمیں دریا کے بہائو کی مخالف سَمت میں بھی جانا پڑا تو دریغ نہیں کریں گے‘‘، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
آخرکار 2018کے قومی انتخابات کے لیے قبل از انتخابات انتظامات کیے گئے، قابلِ انتخاب امیدوار پاکستان تحریک انصاف میں شامل کیے گئے ، نامزدگی فارم واپس لینے کی آخری تاریخ پر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں تاکہ اُنھیں متبادل امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا موقع ہی نہ ملے، پولنگ اسٹیشنوں کے اندر فوج تعینات کی گئی ، ووٹوں کی گنتی کے وقت سیاسی پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کو نکال باہر کیاگیا ، پریزائڈنگ افسران کی مہر اور دستخطوں سے فارم 45جاری نہیں کیے گئے ۔ پہلی بار آرٹی ایس سسٹم ایجاد کیا گیا ،لیکن پھر بھی پی ٹی آئی کو اتنی اکثریت نہ مل سکی کہ بلاشرکتِ غیرے حکومت بناسکے، اس لیے دوسری چھوٹی جماعتوں کو حکومتی اتحاد کا حصہ بنایا گیا ، آزاد منتخب امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا اور اس طرح جنابِ عمران خان کی حکومت وجود میںآئی ۔ بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کی حکومت کو گراکر عبدالقدوس بزنجو کو وزیرِ اعلیٰ اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے اور بعد میں اُن کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے ،بجٹ کی منظوری ،قانون سازی کے معمول کے طریقۂ کار کو معطل کر کے راتوں رات درجنوں قوانین کو پڑھے بغیر منظور کرانے کے لیے یہی کرامت دکھائی گئی۔ چنانچہ ہمیں تمام ذمے دار شخصیات نے بتایاکہ یہ قوانین اوپر سے نازل ہوئے تھے ،ہمیں ان کا مطالعہ کرنے کا موقع بھی نہیں ملا اور عجلت میں پارلیمنٹ سے پاس کرائے گئے۔
باہر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور دوسو ماہرین پر مشتمل ٹیم سے نظام چلانے کے دعوے ہوا میں تحلیل ہوگئے اور ایک سال بعد وزیر اعظم کو اعتراف کرنا پڑا کہ ہمیں نظامِ حکومت بہت دیر سے سمجھ میں آیا۔1960کے عشرے میں ریڈیو پاکستان کی مقبولیت کے دور میں کسی نغمے کا یہ مصرع بسوں میں سماعتوں سے ٹکراتا تھا:’’باتیں فلک کی، قصے زمیں کے، جھوٹے کہیں کے‘‘، سو صورتِ حال کچھ ایسی ہی رہی ۔باہر سے لوٹا ہوا زرِ مبادلہ لانا تو درکنار ، قوم کے ٹیکسوں کی کمائی سے براڈ شیٹ کو کئی ملین پائونڈ ادا کرنے پڑے، ریکوڈک کے چھ ارب ڈالر جرمانے سے نجات کے لیے نیا معاہدہ کرنا پڑا ، جس کی تفصیلات پردۂ غیب میں ہیں، جب یہ پردہ اٹھے گا تو پتا چلے گا کہ قومی اثاثے کس قیمت پر نیلام کیے گئے ۔
داخلی قلّت کے باوجود چینی اور گندم کی برآمداورپھر درآمد، دوائوں کے اسکینڈل، براڈ شیٹ اسکینڈل، راولپنڈی رِنگ روڈ اسکینڈل، ملین ٹری منصوبہ ، بی آرٹی پشاور، شہزاد اکبر کے کارنامے،پنجاب میں اعلیٰ بیوروکریسی کے پے در پے تبادلے، الغرض کسی ایک اسکینڈل کی بھی نتیجہ خیز انکوائری سامنے نہ آئی ۔ براڈ شیٹ اسکینڈل کی تحقیق کے لیے جسٹس (ر)شیخ عظمت سعید پر مشتمل یک رکنی کمیشن بنایا گیا ، حالانکہ وہ خود اس کا حصہ تھے، کیونکہ وہ اس وقت نیب کے پراسیکیوٹر جنرل تھے اور لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب نیب کے چیئرمین تھے، پھر لیفٹننٹ جنرل منیر حفیظ چیئرمین بنے ، بعد میں پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خان تھے، ان میں سے کسی کو تحقیق وتفتیش میں شامل نہیں کیا گیا اور علامتی طور پر چند بیوروکریٹس کو نامزد کر کے معاملے کو داخلِ دفتر کردیا گیا ۔
بندوبستی جمہوریت کا نقصان یہ ہوا کہ جنابِ عمران خان انانیت ،خود پرستی، عُجب ، تکبر ، برخودراستی ،منتقم مزاجی، احسان فراموشی، دوسروں کی توہین ، تحقیر اور تذلیل میں ساری حدوں کو عبور کرگئے ،انھوں نے اپنے گِردوپیش اور سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کا جمِ غفیر تیار کیا جو اُن کے اس ذوق کی تعمیل میں صرف دوآتشہ نہیں،بلکہ مکمل آتش بداماں اور شعلہ بدہن تھے۔اس لیے ’’میری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ کے مصداق جنابِ عمران خان کی شخصیت ایک قومی قائد اور قومی رہنما کے طور پر ابھرنے کے قابل ہی نہ تھی، کیونکہ دوسروں کو آزارو ایذا پہنچانا اُن کی فطرتِ ثانیہ ہے ، وہ دوسروں کو بے توقیر کرکے اپنی بے توقیری کا سامان تو کرسکتے ہیں ، دوسروں کی عزت کر کے عزت کمانا اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ ترتیب سے رکھے ہوئے دانوں کو بکھیرنا تو جانتے ہیں، بکھرے ہوئے دانوں کو جمع کر کے قوم کی صورت گری کرنا اُن کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔
سیاسی حریفوں کو تو چھوڑیے!وہ اپنے حلیفوں کو بھی عزت دینے اور وعدوں کی پاسداری کے روادار نہیں رہے، اُن کا اپنے بارے میں یہ زعم ہے کہ پورے ملک میں اُن کا مقابل کوئی نہیں ہے، اُن کے علاوہ سب خائن ،چور اور بے ایمان ہیں، فقط اُن کی ذات ہی معیار ومدارِ ایمان ہے۔ اب آخرمیں آکر انہوں نے ریاستِ مدینہ سے آگے بڑھ کر ’’اَمر بالمعروف‘‘ کو اپنی تشہیری مہم کا عنوان بنایا ، حالانکہ اُن کی زندگی اور گردوپیش میں ’’معروف ‘‘تلاشِ بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوگا۔جنابِ شاہنواز فاروقی توفواد چودھری کو اُن کا’’ نفسِ امّارہ‘‘کہتے ہیں،شیخ رشید تو اس سے بھی آگے کی چیز ہیں، ماہرِ دُشنام وخرافات شہباز گِل ، الٹرا لبرل شیریں مزاری ، بدزبانی اور بدکلامی کے امام مراد سعید وغیرہ میں سے کون ہے جس کو ’’معروف‘‘سے کوئی نسبت ہویا پھر خان صاحب کے نزدیک ’’معروف ‘‘اور ’’مُنکَر‘‘ کی اپنی کوئی تعریف ہوگی ، جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ 2011سے تاحال اُن کے تمام خطابات خود پسندی اور دوسروں کی توہین وتذلیل کا مرقّع ہیں ،چونکہ انھوں نے آزاد ماحول میں نشوونما پائی ہے ،اس لیے وہ رشتوں کی تقدیس اور حرمت سے نا آشنا ہیں ، بس وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہیں اوراُن کی خوش نصیبی ہے کہ اسی قماش کے لوگ انہیں مل گئے ہیں ،اُن کی ٹیم میں کوئی ’’رَجُلِ رشید‘‘ نہیں ہے،اگر کوئی ہے تو وہ بے اثر ہے، جب وزیر مذہبی امور بھی انھیں ’’امام العاشقین‘‘ثابت کرنے پر تُلے بیٹھے ہوں تو اصلاح کون کرے گا۔
قرآن وسنّت کا ’’ معروف‘‘ تو دوسروں پر اتہام والزام ،دشنام ، تمسخر واستہزاء ، تنابُز بالالقاب (برے ناموں سے پکارنا) اور طعن وتشنیع کی اجازت نہیں دیتا ۔اسی طرح کسی کو مجرم قرار دینا عدالتوں کا کام ہے، جو انہوں نے خود سنبھال رکھا ہے، جبکہ اپنے دور کے کسی مجرم کو انہوں نے عدالتوں سے عبرت ناک سزا نہیں دلوائی ۔دوسری جماعتوں پر اُن کا الزام تھا کہ ان میں جمہوریت نہیں ہے، لیکن پھر اُن کی جماعت بھی اُسی رنگ میں رنگ گئی اور اپنے مخالفین کی طرح نامزدگیوں پر گزارا کیا جارہا ہے۔ دوسروں پر الزام تھا کہ انہوں نے بہتّرسال میں ملک پر تیس ہزار ارب روپے کے داخلی اور بیرونی قرض چڑھائے ،مگر انہوں نے اپنے تین چار سالوں میں سارے ریکارڈ توڑ دیے اور کہاجاتا ہے کہ ان کے دور میں قومی قرضوں میں بیس تا بائیس ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے، جبکہ برسرِ زمین ان کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
البتہ ان کی ایک حکمتِ عملی کی داد دینا پڑتی ہے کہ مخالفین پر اتنی یلغار کرو اور الزامات کی اتنی بھرمار کرو کہ انہیں تن بدن کا ہوش نہ رہے اور وہ دفاع پر مجبور ہوجائیں اور جوابی یلغار کا انہیں ہوش نہ رہے، وہ انگریزی کے اس فارمولے پر لفظاً ومعناً کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہیں : ’’جارحیت بہترین دفاع ہے‘‘۔ اُن کے سیاست وحکمرانی کے اثاثے میں اپنی مارکیٹنگ کے لیے کوئی پروڈکٹ نہیں ہے، اس لیے دوسروں کی حقیقی یا مفروضہ خامیوں پر گزشتہ پندرہ سال سے اُن کی سیاست چل رہی ہے۔ ساڑھے تین سال کی حکمرانی کے باوجود ہرخرابی اور ناکامی کا ملبہ وہ اپنے سابقین پر ڈالتے ہیں ، تو سوال یہ ہے :’’حضور! آپ اسی کے ازالے کے لیے تو آئے تھے، اگراب بھی آپ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو اس کا ذمے دار کون ہے‘‘،آپ کے بقول آپ کو مقتدرہ کی پوری حمایت حاصل رہی ،بلکہ مقتدرہ کے ایک ذمے دارنے صحافیوں کو ہدایت کی :’’معیشت اگر اچھی نہیں ہے، تو بری بھی نہیں ہے ، چھ ماہ تک آپ لوگ زبان بند رکھیں ،قلم روکے رکھیں اور سب اچھا ہے کی خبر دیں‘‘، لیکن اب ساڑھے تین سال بعد بھی اچھی خبر کہیں سے نہیں آرہی۔ ماہرِ معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا: ’’سری لنکا کی طرح پاکستان بھی دیوالیہ پن کے قریب ہے‘‘، واللہ اعلم بالصّواب۔ الغرض مقتدرہ نے محدود جمہوریت کے تجربے کے بعد جس ’’بندوبستی جمہوریت‘‘ کا تجربہ کیا، اب وہ خود بھی اس سے مایوس ہوگئے ہیں، ہماری رائے میں اب آئین پر لفظًا ومعنًا عمل کرنے میں ملک وقوم کی بہتری ہے اور اگرناکام تجربات کے بعد مقتدرہ نے اس راز کو پالیا ہے، تو یہ ایک اچھی خبر ہے۔