اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:’’اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ دیجیے اور آخرت میں بھی، بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا، فرمایا: میں جسے چاہوں اپنا عذاب دوں اور میری رحمت ہر چیز پرمحیط ہے ،پس عنقریب میں(دنیا وآخرت کی بھلائی)اُن کے لیے لکھ دوں گا جو تقوے پر کاربند رہتے ہیں ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں، (یہ )وہ لوگ ہیں جو اُس عظیم رسول نبیِ اُمِّی کی پیروی کریں گے جن کو وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے روکتے رہیں گے اور پاک چیزوں کو اُن کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں اوراُن سے اُن کے بوجھ اور وہ طوق دور کرتے ہیں جو اُن کے گلے میں تھے ،پس جو لوگ اُن پر ایمان لائے، اُن کی تعظیم کی ، اُن کی نصرت کی اور اس نور کی پیروی کی جو اُن کے ساتھ اتارا گیا ،(درحقیقت) وہی لوگ فلاح یافتہ ہیں، (الاعراف:156-157)‘‘۔
علامہ محمود آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:دنیا اور آخرت کی حسنہ کی دعا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں اور آپ کے پیروکاروں کے لیے مقدر فرمادیا، ایک روایت میں ہے: ’’جو کچھ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے مانگا تھا، اللہ تعالیٰ نے بن مانگے امتِ محمدرسول اللہ ﷺ کے لیے مقدر فرمادیا، (روح المعانی،ج:5،ص:73)‘‘۔
الاعراف:157میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ اپنے رسولِ مکرّم ﷺ کو چیزوں کو حلال وحرام قرار دینے کا اختیار عطا کیا ہے، اسی کو ہماری فقہی زبان میں ’’تَشْرِیْع‘‘کہتے ہیں، یعنی آپ شارعِ مُجازہیں،اللہ تعالیٰ نے احکامِ شرعیہ کو قرآن تک محدود نہیں فرمایا، بلکہ صاحبِ قرآن کو بھی اس کا اختیار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے:
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سنو! مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کی مثل بھی اس کے ساتھ ہے، سنو! عنقریب ایک شخص پیٹ بھرا ہوا اپنی مسنَد پر ٹیک لگائے ہوئے کہے گا: اس قرآن کو لازم پکڑو، پس جو کچھ تم اس میں حلال پائو ، اُسے حلال مانو اور جو کچھ تم اس میں حرام پائو، اُسے حرام مانو ، سنو! تمہارے لیے پالتو گدھا اور کچلیوں سے شکار کرنے والے درندے حلال نہیں ہیں، ( ابودائود: 4604)‘‘۔ ایک اور حدیث میںفرمایا: ’’سنو! جو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے، اس کا وہی درجہ ہے جو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، (ابن ماجہ:12)‘‘۔ ’’ نبی ﷺ نے خیبر کے دن پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں اور کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں( کا گوشت کھانے )سے منع فرمایا ہے، ( نسائی:4348)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے شریعت کے احکام کو قرآن تک محدود نہیں رکھا ، بلکہ فرمایا: ’’اور جو کچھ تمھیں رسول دیں، اُسے لے لو اور جس چیز سے تمھیں رسول روکیں، اس سے رک جائو،(الحشر:7)‘‘، طویل حدیث میں ہے:
’’حضرت عبداللہ بن مسعود نے بعض خواتین کے ممنوع افعال پر لعنت کا ذکر فرمایا تو ایک عورت نے ان سے کہا: میں نے پورا قرآن پڑھا ہے ،جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ تو قرآن میں نہیں ہے، انھوں نے فرمایا: اگر تم نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو یہ سوال تمہارے ذہن میں پیدا نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جوکچھ تمھیں رسول دیں ،اُسے لے لواور جس سے روکیں ،اس سے باز آجائو، (الحشر:7)‘‘، یعنی رسول کا حکم اللہ ہی کا حکم ہے، (بخاری: 4886،خلاصہ)‘‘، حضرت عبداللہ بن مسعود نے الحشر:7سے استدلال کیا کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار رسول اللہ ﷺ کے پاس ہے اور اس حوالے سے آپ جو بھی حکم صادر فرمائیں گے، وہ درحقیقت اللہ ہی کا حکم متصور ہوگا، کیونکہ یہ اختیار آپ کو قرآن نے عطا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ نے کعبہ کو جوحرمت والا گھر ہے، لوگوں کے قیام کا سبب بنادیا اور حرمت والے مہینہ کو اور کعبہ کی قربانی کو اور جانوروں کے گلوں میں پڑے ہوئے پٹوں کو ،یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے ،بے شک اللہ ہر چیز کو بہت جاننے والا ہے، (المائدہ:97)‘‘، حدیث پاک میں ہے:
(۱)’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں مدینہ کے دو پتھریلے ٹیلوں کے درمیان کے خطے کو حرم (حرمت والی جگہ) قرار دیتا ہوںجس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، اے اللہ! ہمارے صاع اور مُدّ(یعنی غلے کو ماپنے والے ہمارے پیمانوں) میں برکت عطا فرما، (بخاری:2889)‘‘،(۲)’’ رسول اللہ ﷺ نے (آل عمران:97کے نزول کے بعد )خطبہ ارشاد فرمایا:لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، پس حج کرو ، ایک شخص نے تین بار عرض کی: یارسول اللہ! کیا حج ہر سال فرض ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر میں تمھارے سوال کے جواب میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا ،تو حج (ہرسال) فرض ہوجاتا اور تم اس کی تعمیل نہ کرپاتے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: جس چیز کے بیان کو میں چھوڑ دوں، تم بھی چھوڑ دیا کرو (یعنی بلاضرورت سوال نہ کیا کرو)، کیونکہ تم سے پہلی امتیں کثرتِ سوال اور اپنے انبیائے کرام علیہم السلام سے اختلاف کی بنا پر ہلاک ہوئیں، پس جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو اُسے حسبِ توفیق بجالائو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جائو، (مسلم: 1337)‘‘۔اس حدیث کی روشنی میں یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ حلال وحرام کی کنجی آپ کے پاس ہے ،کیونکہ آپ ﷺ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: ’’اگر میں تمہارے سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر حج ہرسال فرض ہوجاتا‘‘۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا:’’میں اس سلسلے میں اللہ سے رجوع کروں گا یا جبریلِ امین سے رجوع کروں گا یا وحی کا انتظار کروں گا، بلکہ آپ نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ فرمادیا‘‘۔
’’حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں:عیدالاضحی کے دن نمازِ عید کے بعد رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قربانی کی ،اس نے صحیح عبادت کرلی اور جس نے قربانی نمازِ عید سے پہلے کی، وہ نماز سے پہلے ذبح کرنا ہے اور اس کی عبادت (صحیح) نہیں ہے، پھر براء ابن عازب کے ماموں حضرت ابوبردہ بن نیار نے کہا: یارسول اللہ! میں نے اپنی بکری کو نماز سے پہلے ذبح کرلیا اور مجھے یہ معلوم تھا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے اور میں یہ پسند کرتا تھا کہ میرے گھر میں میری بکری سب سے پہلے ذبح کی جائے، سو میں نے اپنی بکری کو ذبح کرلیا اور نماز سے پہلے اس سے ناشتہ کرلیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:تمہاری بکری(قربانی نہیں ہے،یہ محض ) بکری کا گوشت حاصل کرناہے، انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ! ہمارے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو چھ ماہ کا ہے اور وہ مجھے دو بکریوں سے زیادہ پسند ہے، کیا وہ میری طرف سے (قربانی میں)کفایت کرے گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اور تمہارے بعد اور کسی کی طرف سے کفایت نہیں کرے گا، (بخاری:955)‘‘۔ آپ نے غور فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ابوبردہ کے لیے چھ ماہ کے بکری کے بچے کی قربانی کوجائز قرار دیدیا، لیکن کسی اور کے لیے اس حکم کو عام نہیں رکھا، یہ شریعت کے احکام مقرر کرنے میں آپ کے اختیار کی واضح دلیل ہے۔
مالی معاملات میں البقرہ:282میں قرآنِ کریم کا واضح حکم ہے کہ مالی معاملات کی دستاویز لکھ لیا کرو اور اپنے میں سے دومردوں یاکبھی دو مرد دستیاب نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو اس پر گواہ بنالو تاکہ اُن (دوعورتوں میں سے بفرضِ مُحال) ایک بھول بھی جائے ،تو دوسری اُسے یاد دلادے۔ پھر ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری کی ایک گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دیا ،حدیث پاک میں ہے:
’’حضرت خزیمہ بن ثابت بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے سواء بن حارث سے ایک گھوڑا خریدا، پھر اس نے دینے سے انکار کردیا، حضرت خزیمہ بن ثابت نے اس عقدکے منعقد ہونے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے حق میں گواہی دی، آپ ﷺ نے فرمایا: خزیمہ! تم تو اس عقد کے وقت موجود نہیں تھے، تمھیں کس چیز نے اس گواہی پر آمادہ کیا، حضرت خزیمہ نے جواب دیا: آپ اللہ کے ہاں سے جو پیغامِ وحی لاتے ہیں، ہم (بن دیکھے اور سنے )اُسے سچ مانتے ہیںاور ہمارا یقین ہے کہ آپ صرف حق بات کہتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کسی کے حق میں یا کسی معاملے پر خزیمہ گواہی دے تو اُس دعوے کے ثبوت میں اُن کی اکیلی گواہی ہی کافی ہے، (مجمع الزوائد:15780)‘‘۔ اس میں رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے عمومی حکم میں حضرت خزیمہ کے حق میں تخصیص فرمادی اور یقینا آپ کو اس کا اختیار تھا۔