لفظِ احسان کا مادّہ حسن ہے،ہر خوبصورت اور مرغوب چیز کوحَسَن کہتے ہیں ،علامہ اصفہانی نے مُستَحسنات کی کئی قسمیں بیان کی ہیں:ان کا تعلق عقل،نفسانی خواہشات ،حواسِ ظاہری وباطنی سے ہے، جیسے علمی نکات اور لطائف ،خوبصورت انسان، خوبصورت مناظر ،خوش ذائقہ چیزیں اور دل آویز خوشبوئیں۔ ’’اَلْحَسَنَہ‘‘ کا معنی ہے:’’ہر وہ نعمت جس کا اثر انسان اپنے نفس، بدن اور احوال میں محسوس کرسکے، اس کی ضد’’ اَلسَّیِّئَہ‘‘ ہے،قرآن مجید میں ہے:’’اور اگر ان کو(مہمات میں کامیابی یا فصلوں کی زرخیزی کی صورت میں) کوئی خوشحالی پہنچے تو کہتے ہیں: یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر ان کو (مصائب،قحط، مہمّات میں ناکامی کی صورت میں)کوئی بدحالی پہنچے تو اس کو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی نحوست قرار دیتے ہیں، (الاعراف:131)‘‘، احادیث مبارکہ میں ہے:
(۱)’’ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: ایمان کیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: جب تمہاری نیکی تمہیں اچھی لگے اور تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو (جان لو کہ)تم مومن ہو،انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ! گناہ کیاہے، آپﷺ نے فرمایا:جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹکے (یعنی اس پر اطمینان نہ ہو) تو اُسے چھوڑ دو،(مسند احمد: 22166)‘‘۔
(۲)’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (سوچے سمجھے بغیردوسروں کے پیروکار) نہ بنوکہ یہ کہو: اگرلوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے ، اگر انھوں نے ظلم کیاتو ہم بھی ظلم کریں گے،بلکہ (اس کے برعکس) اپنے آپ کو اس روِش پر مستقیم رکھوکہ اگر لوگ اچھا کریں تو تم بھی اچھا کرواور اگر وہ برا کریں تو تم زیادتی نہ کرو، (ترمذی:2007)‘‘،(۳) ’’حضرت نواس بن سمعان انصاری نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا : آپ ﷺنے فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتاچل جائے، (صحیح مسلم: 2553)‘‘۔
الغرض حَسَن وہ شے ہے جوعقل کے اعتبار سے پسندیدہ و مرغوب ہواور اس کی عمدگی عقل کے معیار پر پوری اُترتی ہو یا قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے دل کو بھلی لگتی ہو یاحسیّ طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے پر کشش ہو۔
حسن کا اطلاق عام لوگوں کے نزدیک اکثر ان چیزوں پر ہوتا ہے جن کا ادراک آنکھوں سے ہوتا ہے اور قرآن مجید میں حَسَنکا اطلاق اکثر ان چیزوں پر ہوا ہے جن کا ادراک بصیرت (عقل)سے ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جو لوگ غور سے اللہ کا کلام سنتے ہیں پھر اس پر عمدہ طریقے سے عمل کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے،(الزمر:18)‘‘،یعنی وہ اس طریقے سے اس حکم پر عمل کرتے ہیں کہ اس میںنَقص کا شائبہ بھی نہیں رہتا۔حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہﷺسے یہ حدیث یاد رکھی ہے :’’ جس چیز میں شک ہو اس کو ترک کر کے اس چیز کو اختیار کرلو جس میں شک نہ ہو، بیشک صدق میں طمانیت ہے اور کذب میں شک ہے،(سنن ترمذی:2518)‘‘۔
اِسی لفظِ حَسَن سے احسان ماخوذ ہے،یہ لغوی اعتبار سے ’’اَلْاِسَائَۃ ‘‘ (برائی) کی ضد ہے، امام اصفہانی نے لکھا:’’ احسان کا اطلاق دو معنوں پر کیا جاتا ہے:’’کسی شخص پر انعام کرنا، کہا جاتا ہے: فلاں شخص پر انعام کیا یعنی کسی شخص کو کوئی نعمت دی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے،(الرحمن:60)‘‘، یعنی نعمت کا بدلہ نعمت سے دینا چاہیے۔ احسان کا دوسرا معنی ہے :’’نیک کام کرنا‘‘، قرآن مجید میں ہے:’’ اگر تم نے کوئی نیک کام کیا ہے تو اپنے فائدہ کے لیے کیا ہے،(بنی اسرائیل:7)‘‘۔
امام رازی لکھتے ہیں: ’’احسان قرآنِ کریم کے اُن کلمات میں سے ہے ،جن کے معنی مفسرین نے سو تک بیان کیے ہیں، احسان کے ایک معنی ہیں: حسین صورت وسیرت میں تخلیق کرنا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ اُس نے تمہاری صورت بنائی اور بہت حسین صورت بنائی، (مومن:64)‘‘اور فرمایا: ’’(اللہ)وہ ہے جس نے ہر چیز کو حسین بنایا ،(السجدہ:7)‘‘۔اردو میں لفظِ احسان جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اُن معنوں میں عربی میں لفظِ ’’مَنّ‘‘اور ’’اِمْتِنَان‘‘ آتا ہے، ان کے معنی ہیں: بھلائی کرنا ، احسان جتلانا۔پس احسان کے معنی ہیں: ’’قلب یا اعضاء کے کسی فعل کو مرتبۂ کمال پر ادا کرنا ،جس میں کوئی جھول، کوئی نَقص اور کوئی خامی باقی نہ رہے، اسے انگریزی میں Perfectionسے تعبیر کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ جب قلب یا اعضاء کا کوئی فعل یا احساس اس درجے میں ہوگا ، تو اُس میں ہرجہت سے حُسن ہی حُسن ہوگا، جمال ہی جمال ہوگا ، وہ نظروں میں بھی جچے گا، دل کو بھی لُبھائے گااور جس کے لیے انجام دیا جارہا ہے، اُسے بھی بھلا معلوم ہوگا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اورکوئی مردوعورت جوایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کرے گا، تو وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوراُن پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا، (النسآء:124)‘‘۔
ایک طویل حدیث میں ہے: ’’جبریل امین رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور یکے بعد دیگرے اسلام ، ایمان اور احسان کی بابت سوالات کیے، احسان کی بابت سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت (اس انہماک اور حضوریِ قلب کے ساتھ )کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم (اپنی کوتاہ نظری کے باعث )اُسے دیکھ نہیں پاتے، تووہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے، (صحیح مسلم:8)‘‘۔ احسان کا ایک درجہ اخلاص ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اور انھیں فقط اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے یکسو ہوکراس کی عبادت کریں ، (اَلْبَیِّنَہ:5)‘‘۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: بے شک میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اُس کا کوئی شریک نہیںاور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں، (الانعام:162)‘‘،یعنی آپ عالَمِ ارواح میں اول ہیں اور بعثت میں آخر ہیں۔(۲) ’’اور جس نے احسان شعار ہوتے ہوئے اپنا رُخِ (بندگی )اللہ کے حضور جھکا دیا تو اُس نے مضبوط حلقے کو تھام لیا اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے، (لقمان:22)‘‘۔ اگرچہ عام طور پر احسان کا معنی نیکی سے کیا جاتا ہے، جیسے:’’اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤکرو، (بنی اسرائیل: 23)‘‘۔لیکن پوری معنویت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس سے بلند ترین درجے کی نیکی اور حُسنِ سلوک مراد ہے ، اس کا ثبوت اس طویل حدیث سے ملتا ہے :’’تین آدمیوں نے ایک غار میں پناہ لی اور شدید بارش کے سبب ایک چٹان نے سرک کر غار کو بند کردیا، انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: اب اس مشکل سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کسی بہترین عمل کا وسیلہ پیش کر کے ردِّبلاء کی دعا کرے، پس اُن میں سے ایک نے کہا:’’میں (دن بھر )مویشی چَرایا کرتا تھا، پھر (سرِشام) واپس آتااور دودھ دوہ کر اپنے ماں باپ کے پاس لے آتا تاکہ وہ پیئیں ، پھر (اُن کے بعد )میں اپنے بیوی بچوں اور گھر والوں کو پلاتا، ایک دن مجھے واپسی میں تاخیر ہوگئی ،پس جب میں (دودھ لے کر)آیا تو والدین سوچکے تھے، سو میں نے انہیں جگانا پسند نہ کیا ، بچے (خوراک کی طلب میں)میرے قدموں میں بِلک رہے تھے، (مگر ) میں اسی حالت میں شب بھر کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی (اور میں نے اپنے ماں باپ کو دودھ پلایا،اس نے گڑگڑا کردعا کی:)اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے (یہ مشقت صرف )تیری رضا کے لیے کی تھی، تو اس غار کو ہمارے لیے کھول دے تاکہ ہم آسمان کو دیکھ پائیں، سو غار کھول دیا گیا، (صحیح البخاری:2215)‘‘ ۔ اسی طرح باقی دو ساتھیوں نے بھی اپنی اپنی اعلیٰ درجے کی نیکیوں کا وسیلہ پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے غار کے دہانے سے بھاری پتھر کو ہٹادیا اور انھیں مصیبت سے نجات ملی۔
اس کیفیتِ احسان کو خشوع ،خضوع اور خَشیتِ الٰہی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور بے شک نمازضرور بھاری ہے، سوائے اُن لوگوں کے کہ جن کے دل اللہ کے حضور جھکنے والے ہیں، انھیں اس بات کا یقین ہے کہ (ایک دن ضرور )وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیںاور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، (البقرہ: 45-46)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(۱) ’’اور بے شک اللہ نے تمھیں نماز کا حکم دیا ہے، پس جب تم نماز پڑھو توادھر اُدھرتوجہ نہ کرو ، کیونکہ اللہ نماز میں اپنی توجہ بندے کی جانب مبذول فرماتا ہے تاوقتیکہ وہ (خود)اپنی توجہ اس سے ہٹانہ لے،(ترمذی:2863)‘‘، (۲)’’حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تک بندہ نماز میں ہے، اللہ تعالیٰ برابر اپنے بندے کی جانب متوجہ رہتا ہے تاوقتیکہ وہ خود اپنی توجہ ہٹالیتا ہے، پس جب بندہ (اللہ سے )توجہ ہٹالیتا ہے،تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے رُخ پھیر لیتا ہے، ( ابودائود: 909)‘‘، (۳) آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب مسلمان پر فرض نماز کا وقت آجائے تو جو بھی مسلمان اچھے طریقے سے وضو کرتا ہے، نماز اور رکوع میں خشوع کرتا ہے تو یہ نماز اُس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ، جب تک کہ کبیرہ گناہ نہ کرے اور (اللہ کی یہ نوازش) عمر بھر جاری رہتی ہے، (مسلم:228)‘‘۔ (۴)نبی ﷺ نے فرمایا: ’’نماز اس حضوری کے ساتھ ادا کرو کہ (گویا) یہ تمہاری زندگی کی آخری نماز ہے، کیونکہ اگر تم (اپنی کوتاہ نظری کے باعث)اُسے نہیں دیکھ پاتے تو وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے، (الترغیب والترہیب: 5075)‘‘،(۵) ’’سعید بن مسیّب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ (نماز میں) اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے، تو انھوں نے فرمایا: اگر اس کا دل اللہ کے حضور جھکا ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی حضوریِ بارگاہِ رب العالمین کے اثرات ہوتے،(مصنَّف ابن ابی شیبہ: 6787)‘‘،(۶) نبی ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں، پھر آپ نے اس پر شدت فرمائی یہاں تک کہ فرمایا: لوگ نمازوں میں بے توجہی سے باز آجائیں، ورنہ اُن کی نگاہوں کو اُچک لیا جائے گا، (بخاری: 750)‘‘۔ (جاری ہے)