سابق مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے خلاف جگتو فرنٹ بنا،پھرسابق صدر محمد ایوب خان کے خلاف متحدہ حزبِ اختلاف بنی،1967میں جمہوری مجلسِ عمل وجود میں آئی، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1973ء میں متحدہ جمہوری محاذبنا، 1974میں متحدہ مجلس ختمِ نبوت کی تشکیل ہوئی اور پھر1977میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے)بنا ، سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے خلاف 1981ء میں تحریک بحالیِ جمہوریت (ایم آرڈی)بنی، محترمہ بے نظیر بھٹوکے خلاف 1988میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا، اُسی دور میں ایک عوامی جمہوری اتحاد بھی بنا ۔پیپلز پارٹی کی سرکردگی میں1993میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس بنا، 2000میں اتحاد برائے بحالی جمہوریت(اے آر ڈی)بنا، 2002کے انتخابات سے پہلے مذہبی سیاسی جماعتوں کے الائنس متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے)کی تشکیل ہوئی، 2017میں سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)بنا،2020میں موجود حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ قائم ہوا ، جو اَب سمٹ چکا ہے ، لیکن تاحال اس کاوجود برقرار ہے۔ 1990کے عشرے میں فرقہ وارانہ تصادم کو کنٹرول کرنے کے لیے ملّی یکجہتی کونسل قائم ہوئی، جو اَب اگرچہ سمٹ چکی ہے ، لیکن علامتی طور پر قائم ہے۔ سیاسی اورمذہبی اتحادوں کایہ ایک سرسری جائزہ ہم نے پیش کیا ہے، ہوسکتا ہے ہم سے تسامح ہوگیا ہو اور کسی اتحاد کاذکر کرنا ہم بھول گئے ہوں، لیکن اکثر کا حوالہ موجود ہے، ان اتحادوں پرغالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:
مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہَیُولیٰ برقِ خِرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
قرآنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ بھی ان کے حسبِ حال ہے:’’ان کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے، (اے مخاطَب!) تم انھیں یکجا گمان کررہے ہوحالانکہ ان کے دل (آپس میں )بٹے ہوئے ہیں، (الحشر:14)‘‘۔الغرض یہ اتحاد مختلفُ الخیال اور مختلف المقاصد عناصر کا مجموعہ ہوتے ہیں، یہ کسی مُثبَت مقصد کے لیے نہیں ،بلکہ منفی مقصد کے لیے قائم ہوتے ہیں، یعنی حکومتِ وقت کو گرانااور ناکام بنانا۔ پس جو اتحاد منفی مقصد کے لیے ہو ، اُس سے کسی مُثبت نتیجے کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے ببول کے درخت سے گلاب کے پھولوں کی توقع کی جائے ۔نیز یہ اتحاد عُجلت میں بنتے ہیں ، یہ حالات کے جبر یا وقتی ضرورت کا نتیجہ ہوتے ہیں ، ان کے پیچھے نہ کوئی نظریاتی انگیخت یا فکری وحدت ہوتی ہے، نہ کوئی عملی منصوبہ پیشِ نظر ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک دو نشستوں میں اتحاد بن جاتے ہیں، ایک اعلامیے کی صورت میں ان کا اعلان کردیا جاتا ہے ، چند مشترکہ اجتماعات ہوتے ہیں ، اُن میں بھی سب کے اپنے اپنے تحفظات ہوتے ہیں کہ کس کا خطاب کب ہوگا ، ترتیب کیا ہوگی، کس جماعت کو کتنی نمائندگی ملے گی ، پرائم ٹائم کس کے حصے میں آئے گا، نیز منتظمین اور مقررین کی طرح مَجمع بھی بٹا ہوتا ہے ، اپنے اپنے جھنڈے ہوتے ہیں۔حاضرین خوش دلی سے صرف اپنے رہنما کو پزیرائی بخشتے ہیں ، دوسروں کے لیے زیادہ جوش اور ولولے کا مظاہرہ نہیں کرتے، یعنی مجمع پوری طرح ذہنی ، فکری اور عملی طور پر محونہیں ہوتا۔ مختلف جلسوں کے منتظمین ،مختلف رکن جماعتیں ہوتی ہیں اور سب کی ترجیحات اپنی اپنی ہوتی ہیں، اس لیے ایک دوسرے سے گلے شکوے بھی بہت ہوتے ہیں۔یہ اتحاد جوہری طور پر تعمیر کے لیے نہیں ہوتے ،بلکہ تخریب کے لیے ہوتے ہیں۔ حکومتِ وقت کی بھی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان میں تفریق پیدا کی جائے تاکہ ان کے درمیان پوری طرح ہم آہنگی نہ ہوپائے۔مقتدرادارے اور حکومتِ وقت اُن کی صفوں میں اپنے گماشتے بھی چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ پتا نہیں ہوتا کہ مجلس میں شریک کون کس کی نمائندگی کر رہا ہے اور کون کس کا مُخبر ہے ۔
عُجلت کے سبب نہ ان اتحادوں کا کوئی باقاعدہ دستوراورمنشوربنایا جاتاہے ، نہ فیصلہ سازی کا طریقۂ کار طے ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت منتخب ایوانوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے حجم کے اعتبار سے اُن کی رائے کا وزن ہوگا یا محض گنتی کرکے فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں گلے شکوے رہ جاتے ہیں ، چھوٹی جماعتوں کو گلہ ہوتا ہے کہ بڑی جماعتوں نے اتحاد کو ہائی جیک کرلیا ہے اور بڑی جماعتوں کو یہ گلہ ہوتا ہے کہ لوگ منتخب ایوانوں میں اپنی نمائندگی کے حجم ، اپنی جماعت کی جسامت اور حقیقی قوت کو نظر انداز کر کے برابر کا درجہ مانگتے ہیںجوکہ معقول بات نہیں ہے۔ ماضی میں نوابزادہ نصر اللہ خان اس طرح کے اتحاد بنایا کرتے تھے ،حجم واثرات کے اعتبار سے چھوٹی جماعت کے سربراہ کو اتحاد کا سربراہ بنالیا جاتا تھا تاکہ وہ ہر ایک کی نازبرداری کرے ، مارے باندھے معاملات کو چلاتا رہے، لیکن وہ اتحاد کو اپنی شخصیت سازی اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ چنانچہ متحدہ مجلس عمل کو اُس وقت کے صوبۂ سرحد کی حکومت مل جانے کے بعد حکومت پر مولانا فضل الرحمن کا کنٹرول تھا ، کیونکہ صوبائی اسمبلی میں اُن کی نمائندگی کا حجم دوسروں سے زیادہ تھا، ایل ایف او (یعنی سترھویں آئینی ترمیم)کی منظوری میں جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر قومی اسمبلی میں انھیں قائدِ حزبِ اختلاف بھی بنادیا گیا تھااور اتحاد میں شامل دوسری جماعتیں احساسِ محرومی کا شکار ہوگئیں ۔
1974میں ایک اتحاد متحدہ مجلس ختمِ نبوت کے نام سے تشکیل پایا ، انھوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مل کر تحریک کو منظّم کیا، کیونکہ ختمِ نبوت پر سب کا ایمان تھا ،نہ یہ کوئی اختلافی مسئلہ تھا ، نہ کسی ایک مسلک یا گروہ کا مسئلہ تھا، بلکہ یہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ تھا، اس لیے اس میں سب اخلاص کی بنیاد پر شریک تھے ،پس اللہ تعالیٰ نے اسے تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیااور رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے مکمل اتفاقِ رائے سے ریاست کی سطح پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، عقیدۂ ختمِ نبوت کودوسری آئینی ترمیم کے ذریعے دستورِ پاکستان میں تحفظ دیا، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کے حلف نامے میں عقیدۂ ختم نبوت کے اقرار کو شامل کیا۔
پی ڈی ایم کی ناکامی کا ایک سبب یہ تھا کہ دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مقاصد مختلف تھے، دونوں حکومت کو دبائو میں لاکر احتساب کے شکنجے سے نکلنا چاہتے تھے، مسلم لیگ ن کے پاس چونکہ کوئی حکومت نہیں ہے ، اس لیے وہ آخری حد تک جانے کے لیے تیارتھے، جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی حکومت ہے، لہٰذا وہ اُسے کسی بھی صورت میں دائو پر لگانے کے لیے تیار نہیں تھے اور یہ بات قابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے استعفوں کا مطالبہ بھی غیر حقیقت پسندانہ تھا، کیونکہ کوئی بھی بخوشی کسی حاصل شدہ منصب سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا، کیونکہ کسی کے پاس ایسی ضمانت نہیں ہوتی کہ آیا آئندہ وہ اس منصب پر منتخب ہوپائے گا، پس اردو کا یہ محاورہ اُن کے حسبِ حال ہے: ’’نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘یا ’’آدھی چھوڑ ساری کو جاوے ، آدھی رہے نہ پاوے‘‘، انگریزی کامحاورہ ہے :’’جھاڑی میں دو پرندوں کے مقابلے میں ہاتھ میں ایک پرندہ غنیمت ہے‘‘ ، کیونکہ کسی کونہیں معلوم کہ جھاڑی کے دوپرندوں میں سے ایک بھی ہاتھ آئے گا یا نہیں۔ سو دل سے استعفے دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا، اس حد تک پیپلز پارٹی کا موقف آئیڈیل تو نہیں ، لیکن حقیقت پسندانہ تھا ۔
صرف 1977کا انتخاب ایک منفرد مثال ہے کہ متحدہ پوزیشن کے منتخب لوگوں نے اسمبلیوں کا حلف نہیں اٹھایا تھا اور تحریک کو جاری رکھا تھا، لیکن وہ تحریک بھی آخر کار ناکامی پر منتَج ہوئی ، سیاست دانوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا، اس کے نتیجے میں قوم کو جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کا تحفہ ملا جو گیارہ سال پر محیط رہا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کو خوش آمدید کہااور پھر وہ تقریبا نو سال اقتدار پر فائز رہے۔
الغرض جب تک اقتدار پر مقتدرہ کے قبضے کی منصوبہ بندی نہ ہو، کسی بھی حکومتِ وقت کے خلاف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوپاتی۔ ہردور کی حکومت جیسی بھی ہو ، اس کے پاس وسیع اختیارات ہوتے ہیں، انتظامیہ اور ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں ، وسائل اس کے پاس ہوتے ہیں،یعنی وہ چھڑی اور گاجر دونوں کا حسبِ ضرورت استعمال کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کمزور حکومت کے خلاف بھی مضبوط حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدمِ اعتماد یکم نومبر1989کو ناکام ہوئی تھی۔ دنیامیں جہاں حقیقی معنوںمیں جمہوریت قائم ہوتی ہے ، جمہوری روایات راسخ ہوتی ہیں ، ضمیروں کی خریدوفروخت یعنی ہارس ٹریڈنگ کا کلچر نہیں ہوتا ، وہاں بعض اوقات حکومتِ وقت وسط مدتی انتخابات کا خطرہ بھی مول لے لیتی ہے اور اسے کامیابی بھی مل جاتی ہے ، برطانیہ کی موجودہ پارلیمنٹ اس کی نمایاں مثال ہے۔
پس سیاسی اورمذہبی اتحاد قائم کرنے سے پہلے لازم ہے کہ ذہنی اور فکری ریاضت کی جائے ، اس کے لیے پسِ پردہ رہ کر کام کیا جائے،دستور ومنشور اور مقاصد واہداف متعین ہوں ،جماعتوں کی نمائندگی کا تناسب طے ہو، فیصلہ سازی کا طریقۂ کار وضع ہو اور جب پورا ہوم ورک ہوجائے تو پھر اُسے منظرِ عام پر لایاجائے ۔ہماری سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا میثاقِ جمہوریت ایک عمدہ مثال ہے،لیکن بعد میں اس پر لفظاً ومعنیً عمل نہیں کیا گیا، کیونکہ جب اقتدار کے حصول اور مفادات کی دوڑ شروع ہوتی ہے تو اصول ونظریات پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور فوری فوائد ترجیحِ اول قرار پاتے ہیں۔ پس ہمارے لیے آئیڈیل بننا نہایت دشوار امر ہے، خود غرضی شخصی ہو یا جماعتی ،ہم پر غالب آجاتی ہے، حالیہ دور میں سید یوسف رضا گیلانی کا متحدہ حزبِ اختلاف کے ووٹوں سے سینیٹر بننا اور پھر اپنے ووٹروں کو اندھیرے میں رکھ کر سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف بن جانا اس کی نمایاں مثال ہے، حالانکہ ہمارے سیاسی اثاثے میں شخصی طور پر گیلانی صاحب ایک بااخلاق اور وضع دار آدمی ہیں۔ اس لیے منتشر الخیال متفرق سیاسی عناصر کا غیر فطری اتحاد بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ، یہ ایسا ہی ہوتا ہے :’’ کَہِیں کی اِینٹ کَہِیں کا روڑا،بھان مَتِی نے کُنْبَہ جوڑا‘‘، اس کے بجائے بہتر ہے کہ ایسی ہم خیال جماعتوں کا دیرپا اتحاد بنایا جائے ،جن کی ترجیحات اور مقاصد واہداف یکساں ہوں۔ ویسے شیخ رشید نے افغانستان کے حالیہ تناظر میں مولانا فضل الرحمن کو اشارۃً کے پی کے اور بلوچستان میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔