ستر وحجاب!

                ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے بنی آدم! بے شک ہم نے تم پر ایسا لباس نازل کیا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور تمہاری زینت (بھی)ہے اور تقویٰ کا لباس، وہی سب سے بہتر لباس ہے ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، اے بنی آدم !کہیں شیطان تم کو فتنے میں نہ مبتلا کردے،جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے اِخراج (اور ان کے لباس اترنے )کا سبب بنا تھاتاکہ وہ انھیں ان کی شرمگاہیں دکھائے ، بے شک وہ (شیطان) اور اس کا قبیلہ تمھیں دیکھتا ہے ،جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے ، بے شک ہم نے شیطانوں کو اُن لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے، (الاعراف:26-27)‘‘، نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی (دونوں) جنت میں رہو ، سو جہاں سے چاہو تم دونوں کھائو اور (قصداً)اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہوجائو گے، پھر شیطان نے دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ (انجامِ کار) ان دونوں کی جو شرمگاہیں اُن سے چھپائی ہوئی تھیں ، اُن پر ظاہر کردے اور اس نے کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تم کو صرف اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے بن جائو گے یا تمھیں دائمی زندگی مل جائے گی اور اس نے قسم کھاکر اُن سے کہا: بے شک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ پھر فریب سے انھیں (اپنی طرف) مائل کرلیا ، پس جب انھوں نے اس درخت سے چکھا تو اُن کی شرمگاہیں اُن کے لیے ظاہر ہوگئیں اوروہ اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑنے لگے اور اُن کے رب نے اُن سے پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھااور تم دونوں سے یہ نہ فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، (الاعراف:19-22)‘‘۔

                ان آیات سے چند باتیں معلوم ہوئیں: حیا ، ستر اور حِجاب انسانیت کی فطرتِ سلیم کا تقاضا ہے ، اس کے برعکس بے حیائی ، فحاشی اور عریانی شیطانی خصلت ہے اور ازل سے شیطان بے حیائی اور عریانی کا داعی رہا ہے اور ستر وحجاب انسانی فطرت ہے، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم وحوا سے لباس دور ہوا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو ڈھانپنے لگے ، الغرض حجاب اور سترپوشی شِعارِ آدمیت اور فطرتِ انسانی کا لازمی تقاضا ہے ۔ابلیس کا ہتھیار روزِ اول سے عریانی اور فحاشی تھا اور شِعارِ آدمیت حجاب اور ستر پوشی تھااور آج بھی انسان کو راہِ راست سے بھٹکانے اور بہکانے کے لیے شیطان کا حربہ یہی ہے ، بس انداز بدل گئے ہیں ، اطوار بدل گئے ہیں ، لیکن روحِ شِعار وہی ہے جو ازل سے تھی۔

                مغربی تہذیب میں پردے کو خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی ،انحطاط کی علامت اور ترقی کی راہ میں رکاٹ کا ذریعہ سمجھتا جاتا ہے،ہمارے ہاں کے جدت پسندحضرات بھی ستر وحجاب کو فرسودہ نظام اور جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں،حالانکہ یہ محض غلط فہمی اور حقیقت ناشناسی ہے ۔پردے کا تعلق لباس سے ہے ،یعنی ایسا لباس جو جسم کو اچھی طرح ڈھانپ دے ،اتنا چست نہ ہو کہ اعضاء کی ساخت نمایاں ہوجائے ،سرڈھکا ہوا ہو،چہرہ بھی اجنبی کے سامنے ظاہر نہ ہواور تعلیم کا تعلق انسان کی قوت فکریہ اور اس قوت کے استعمال سے ہے ،پس لباس کے ساتھ تعلیم اور ذہنی اور فکری ترقی اور پستی کا تعلق نہیں ہے ۔پردہ عورت کے لیے نہ قید ہے ،نہ اس کی تحقیر اور نہ اس پر بے اعتباری کا اظہار ،بلکہ اس کا مقصد عورت کا تحفظ ،عفت اور پاکدامنی اور اس کی نگہداشت ہے ۔اگر آپ سفر میں جارہے ہوں تو چادر،تکیہ اور جوتے تو یونہی رکھ دیں گے ،لیکن اگر آپ کے ساتھ سونا اور خطیر رقم یا ہیرے موتی ہوں تو اُنہیں یونہی کھلی جگہ پر ڈال دینا گوارا نہیں کریں گے ،بلکہ ایسی جگہ رکھنا چاہیں گے کہ جس میں اس کے تحفظ کا بھرپور انتظام ہو اور اسے لوگوں کی نگاہ سے بچاکر رکھنا چاہیں گے ،یہی حال بلکہ اس سے بڑھ کر خواتین کا ہے ۔ 

                 ہم اسلامی تعلیمات پر اُن کی روح کے مطابق عمل کرنے کے حوالے سے تنزل(Declining) کے دور سے گزر رہے ہیں۔ مغربی تہذیب اور اُس کی اقدار کا عالمی سطح پر غلبہ ہے اور مسلمانوں پر بحیثیتِ مجموعی مرعوبیت کی کیفیت طاری ہے،تاہم عربی کا مقولہ ہے:’’ مَالَایُدْرَکُ کُلّہ لَایُتْرَکُ کَلّہ‘‘ ، ترجمہ:’’ اگر پورے کا پورا مقصد حاصل نہ ہورہا ہو،توجوکچھ حاصل ہوسکتا ہے،اس سے تودستبردار نہیں ہونا چاہیے ‘‘۔

                ستروحجاب کے حوالے سے قرآن وسنت کی ہدایات اور فقہائے امت کے اقوال حسبِ ذیل ہیں:

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)’’اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو ، اگر تم تقویٰ اختیار کرو ، سو تم کسی سے لچک دار لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو ،وہ کوئی (غلط )امید لگابیٹھے اور دستور کے مطابق بات کرنا اور اپنے گھر وں میں ٹھہری رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح بنائو سنگھارکی نمائش نہ کرنا، (الاحزاب:32-33)‘‘،(۲)’’اے نبی! اپنی ازواجِ مطہرات، صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو فرمادیں کہ وہ (گھر سے باہر جائیں تو )اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں، اس طرح جلد پہچان ہوجائے گی (کہ وہ آزاد عورتیں ہیں)، (الاحزاب:59)‘‘۔

                 حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میںبیان کرتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کی بنا پر اپنے گھر وں سے نکلیں تو اپنی چادروں سے سر کو اور چہر ے کو اس طرح ڈھانپ لیں کہ فقط ایک آنکھ کھلی رہے،(جامع البیان:21861)‘‘۔امام رازی لکھتے ہیں:’’زمانہ جاہلیت میں آزاد عورتیں اور باندیاں چہرہ کھول کر باہر نکلتی تھیںاور فساق وفجار ان کے پیچھے دوڑتے تھے ، تب اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر سے چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا،(تفسیر کبیر ، جلد: 9، ص:184)‘‘۔

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)’’(اے مومنو!) جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور اُن کے دلوں کے لیے نہایت پاکیزگی کا باعث ہے، (الاحزاب:59)‘‘،(۲) ’’اور وہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں، اُن پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ اپنے حجاب کے کپڑے اتار رکھیں ،جبکہ وہ اپنی زیب وزینت دکھانے والی نہ ہوںاوراگروہ اس سے بھی احتیاط کریں تواُن کے لیے بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، جاننے والا ہے، (النور:60)‘‘،(۳)’’اور آپ مسلمان عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ، مگر جو خود ظاہر ہواور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور زیبائش کو صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں ،(النور:31)‘‘،احادیثِ مبارکہ میں ہے:

                (۱)’’حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں: عورت سراپا چھپانے کی چیز (واجب الستر)ہے، جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تکتا رہتاہے،(سنن ترمذی:1173)‘‘،(۲)’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی  ﷺ نے فرمایا: ہر آنکھ زانیہ ہے اور جب عورت معطر ہوکر کسی مجلس سے گزرتی ہے تو وہ زانیہ ہوتی ہے،(سنن ترمذی:2786، سنن ابوداؤد:4173)‘‘،(۳)’’حضرت شماس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :اُمِّ خلّاد نامی ایک عورت نقاب پہنے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ،وہ اپنے شہید بیٹے کی بابت پوچھ رہی تھی ، نبی ﷺ کے بعض صحابہ نے کہا :تم اپنے بیٹے کے متعلق اس حال میں پوچھ رہی ہوکہ تم نے نقاب پہنی ہوئی ہے، اس نے کہا: میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے، اپنی حیا نہیںکھوئی ، (سنن ابوداؤد :2488)‘‘، (۴)’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : میں نے دیکھا : رسول اللہ  ﷺ  مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کی طرف دیکھ رہی تھی، دراں حالیکہ وہ (جنگی کھیل)کھیل رہے تھے ، میں اس وقت لڑکی تھی ، سوچو کہ نو عمرکھیل کی شوقین لڑکی کے شوق کا عالم کیاہوگا! ،(صحیح مسلم:892)‘‘۔

                علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں:’’آزاد عورتیں چادروں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں تاکہ معلوم ہوجائے وہ آزاد عورتیں ہیں،(زادالمسیر،جلد:6،ص:422)‘‘۔علامہ ابو سعود لکھتے ہیں:’’عورتیں جب کسی کام سے جائیں تو چادروں سے اپنے چہروں اور بدنوں کو چھپالیں،(تفسیر ابو سعود ، جلد:5،ص:239)‘‘۔

                ’’ابو عبیدہ سلمانی سے الاحزاب:59 کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا :تم چادر کو اپنی پیشانی پر رکھ کر چہرے کے اوپر لپیٹ لو، سُدِّی نے کہا :ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ لو،(علامہ ابوالحیان کہتے ہیں:)اندلس میں بھی یہی شِعار ہے کہ عورتیں ایک آنکھ کے سوا باقی چہرے کو ڈھانپ کر رکھتی ہیں، حضرت ابن عباس اور قتادہ نے کہا :چادر سے چہرے کو ڈھانپ لے اور دونوں آنکھوں کو کھلا رکھے،’’ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ چادر کے ایک پلّو سے چہرہ کو ڈھانپ لیاجائے ،یہ پردہ ان کی شناخت کے لیے مناسب  ہے، کیونکہ جب آزاد عورتیں اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں گی تو وہ بے پردہ پھرنے والی بے حیا باندیوں سے ممتاز ہوجائیں گی اور فساق اور فجار کی ایذا رسانی اور چھیڑ خانی سے محفوظ رہیں گی، (البحرالمحیط،جلد:8،ص:504 )‘‘۔

                موجودہ ماحول میں ہماری رائے میں ستروحجاب کی کم از کم شرعی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لباس کی وضع حسبِ ذیل ہونی چاہیے:(۱) معمول کے لباس کے اُوپر ایسا اور کوٹ جس سے عورت کے نسوانی اَعضاء کی ساخت مستور ہو،(۲)اسکارف جس سے سر بالوں سمیت ڈھکا ہو اہو،اس طرح کے لباس میں معمول کے دفتری اور منصبی فرائض انجام دینے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اور کسی حد تک حیا کی رعایت ہوجاتی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی فروغ پائے ،اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، (النور:19)‘‘،حدیث پاک میں ہے:

                ’’حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: وہ اور حضرت میمونہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں، اس اثناء میں ابنِ اُمِّ مکتوم آئے اور یہ احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان سے پردہ کرو ‘‘، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ تو نابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھ پارہے ہیں اور نہ ہمیں پہچانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم دونوں اُن کو دیکھ نہیں رہیں،(ترمذی:2778)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت ہر ایک کے فتنے میں مبتلا ہونے کے امکان کو رفع نہیں کیا جاسکتا۔

View : 730

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.