زعمِ پارسائی (حصہ دوم)

                خوش فہمی ، خود بینی اور تعلّی انسان کو حقیقت پسندی سے دور کردیتی ہے ، ایسے لوگ خوابوں کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں ، اپنے لیے بھی مدح وستائش کو پسند کرتے ہیں اور خود بھی اپنے ولیِ نعمت کی چاپلوسی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں اور اپنے ممدوح کے کانوں میں جھوٹ ہی کا رس گھولتے ہیں ، چنانچہ فواد چودھری نے یہ نیا فلسفہ تراشا :’’موٹر سائیکل کی خریداری میں اضافہ عوام کے تَمَوُّل (Richness) کی علامت ہے‘‘، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اور اُن کے حواریوں نے موٹر سائیکل اور کاروں کی فروخت کو عوام کے خوشحال ہونے کی دلیل بنادیا ۔ جبکہ زمینی صورتِ حال یہ ہے :’’بیسویں صدی کے پانچویں، چھٹے ، ساتویں اور آٹھویں عشرے تک اخبار فروش ، دودھ فروش اور چھوٹا موٹا سامان ڈھونے والے سائیکل استعمال کرتے تھے اوربعض اوقات سائیکل کے پیچھے ایک پہیوں والا ریڑھا بھی جُڑا ہوتا تھا ۔مگر اب ان تمام کاموں کے لیے موٹر سائیکل استعمال ہورہا ہے، دیہاتوں اور کراچی جیسے شہر میں بھی موٹر سائیکل کرائے کی سواری کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ’’بائیکیا(Bykea)‘‘کمپنی بھی موجود ہے ۔ پہلے کراچی میں دھوبی حضرات گھروں سے کپڑے جمع کرنے ،پھر دھوکر اور استری کر کے واپس گاہکوں کے گھروں میں  پہنچانے کے لیے گدھاگاڑی استعمال کرتے تھے، مگر اب ان جیسے دیگر کاموں کے لیے ’’موٹر سائیکل ڈالا‘‘ استعمال ہورہا ہے۔

                 سبزی منڈی ،فروٹ منڈی اورتمام ہول سیل مارکیٹوں میں نقل وحمل کے لیے اس کا استعمال عام ہے ،شہروں میں پرانے رکشے بتدریج غائب ہورہے ہیں اور ان کی جگہ موٹر سائیکل رکشے لے رہے ہیں، کیونکہ ان میں زیادہ آدمیوں کی گنجائش ہوتی ہے ، غریب آدمی آنے جانے اور تقریبات میں شرکت کے لیے اپنی پوری فیملی کو موٹر سائیکل پر لاد دیتا ہے، ڈرائیور کے علاوہ دو دو اورتین تین سواریاں بھی نظر آجائیں گی ، سو اب موٹر سائیکل تعیّش یا تموّل کی علامت نہیں ہے، بلکہ اکثر صورتوں میںبنیادی ضرورت میں شامل ہے۔ کیونکہ زیریں متوسط طبقے کے لوگ اب  ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنے کے متحمل نہیں رہے ، چھوٹی کاروں کی کثرت بھی اسی لیے ہے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی پر مشتمل کراچی جیسے صنعتی اور تجارتی شہر میں کوئی باوقار پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے اور لوگوں کے پاس متبادل آپشن بھی نہیں ہے ، لیکن حیرت ہے کہ وزیر اعظم اور فواد چودھری کے نزدیک موٹرسائیکل کی فروخت تموّل کی علامت ہے۔

                 یورپ اورمغرب میں آبادی کی ایک معتَد بہ تعداد حکومت کی طرف سے سوشل کیئر سسٹم کے تحت گزارا کر رہی ہے ، اُن کی مقامی حکومتیں انھیں مفت مکان بھی فراہم کرتی ہیں اور گزر اوقات کے لیے ہفتہ وار وظیفہ بھی دیتی ہیں ۔ کار ،ٹیلی ویژن ،ریفریجریٹر ، ڈیپ فریزر ، واشنگ مشین ، مرکزی حرارتی نظام سے آراستہ مکان اور ہیلتھ انشورنس بھی اُن کو دستیاب ہے،اوباما ہیلتھ کیئر کا سب کو علم ہے، لیکن اُن کی حکومت یہ نہیں کہتی کہ تم نے کار رکھی ہوئی ہے ،تم تو مالدار ہو، لہٰذا سوشل کیئر سسٹم سے تمہارا نام خارج کیا جارہا ہے، سو حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے :’’الحذر ! اے چیرہ دستاں !سخت ہیں فطرت کی تعزیریں‘‘۔

                1990تک خال خال لوگوں کے پاس لینڈ لائن ٹیلی فون ہوتے تھے، نواز شریف صاحب نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اسے عام کیا، اسی طرح پاسپورٹ بھی رئیس یا بارسوخ ہونے کی علامت تھی، عام آدمی کو دستیاب نہیں تھا، پہلی مرتبہ اسے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے عام کیا اور غریب عوام کے لیے سعودی عرب ،کویت اور امارات وغیرہ میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔فواد چودھری جیسے لوگ عوام کو خس وخاشاک نہ سمجھتے اور زمین کی مخلوق کا حصہ سمجھ رہے ہوتے تو انھیں پاکستان کی تاریخ ، معاشی ارتقاء اور معاشرتی بُنَت (Fabrication) کا پتا ہوتا، مگر کیا کیجیے ! حکومت میں شیخ رشید تو ہے ،مگر کوئی ’’رَجُلِ رشید‘‘ نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو وزیر اعظم اور وزراء عوام کا اس طرح مذاق نہ اڑاتے ۔ اس لیے ہم نے لکھا تھا: ’’ معاش اور معاشرت کی جو چیزیں کبھی آسائش اور تعیّش کے درجے میں ہوتی تھیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت میں بدل جاتی ہیں ‘‘۔ماضی میں لوگ گیس کے بغیر بھی گزارا کرتے رہے ہیں،لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے ، وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھوم سکتا کہ لوگ پھر لکڑی اور کوئلے کے ایندھن اور مٹی کے تیل کے چولہوں کی طرف واپس پلٹ جائیں ، اب توشاید لکڑی گیس سے بھی مہنگی دستیاب ہو، اب کچن پرانے طرز کے نہیں رہے ۔

                حقیقت پسندی سے گریز کا نتیجہ ہے کہ حکومت کو ترجمانوں کا لشکرِ جرّار پالنا پڑ رہا ہے، وزیرِ اعظم کی مصروفیات میں ترجیحِ اول روزانہ یا ایک آدھ دن کے وقفے سے ترجمانوں کے اجلاس ہیں ،ترجمانوں کی اتنی افراط ہم نے دنیا کے کسی جمہوری ملک میں نہیں دیکھی۔ خیبرپختونخوا کے سترہ اضلاع میں مقامی انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد عقل مندی کا تقاضا تھا کہ حکومتی جماعت اپنی شکست کا بھونڈا جواز پیش کرنے کے بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا تجزیہ کرتی ، اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتی اور ان کے ازالے کی تدبیر کرتی ، عوام دشمن ناکام پالیسیوں کو بدلنے کا سوچتی ،لیکن اس مسئلے پر بھی ہمیں سنجیدگی نظر نہیں آئی ، وہی روایتی کھلنڈرا پن نظر آرہا ہے، چنانچہ اب میڈیا سے معلوم ہوا :’’وزیر اعظم نے اپنی حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی’’ تنظیم نو‘‘کردی ہے، آئیے! دیکھیں اس کی حقیقت کیا ہے:

                ’’نو‘‘اگر فارسی لفظ ہے تو اس کے معنی ہیں:’’نئی‘‘ ، مگر اس میں نیا پن کچھ بھی نہیں ہے، سب پرانے دیکھے بھالے چہرے ہیں ، اس معنی میں اس پر’’تنظیم نو‘‘ کا اطلاق سجتا نہیں ہے، البتہ اسے ’’ترتیبِ نو‘‘ کہہ سکتے ہیں، لیکن ’’ترتیبِ نو ‘‘کہنا بھی زیادہ نہیں جچتا، کیونکہ اسد عمر صاحب پہلے بھی پارٹی کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں اور اگر تنظیمِ نو میں’’نو‘‘سے مراد انگریزی لفظ ’’No‘‘ہے، تو معنوی اعتبار سے درست قرار پائے گا، علامہ اقبال نے کہا ہے:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا                 منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

                ترجمہ:’’ پرانی طرز پر جمے رہنا اور حقیقی اور معنوی تبدیلی سے گھبرانا ،قوموں کی زندگی میں یہی مرحلہ مشکل ہوتا ہے‘‘۔اس پر فارسی کا یہ محاورہ صادق آتا ہے: ’’ہرکہ درکانِ نمک رفت، نمک شد‘‘، یعنی جو نمک کی کان میں گیا، وہ بھی پگھل کر نمک بن گیا‘‘۔ فقہاء نے کہا ہے:’’ اگر گدھا نمک کی کان میں گر جائے اور اس کا جسم گلنے کے سبب پانی ہوکر کان میں جذب ہوجائے ، تو اس کی ماہیت بدل جاتی ہے اور حرمت کا حکم باقی نہیں رہتا‘‘۔ سو خان صاحب جس طرح دوسری سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وغیرہ پر الزام لگاتے تھے کہ ان کی تنظیمیں جعلی ہیں ، قائدین کے من پسند لوگ عہدوں پر فائز کیے جاتے ہیں ، کسی انتخابی عمل سے گزر کر عہدیدار نہیں بنتے، پس اب پی ٹی آئی بھی اسی صف میں شامل ہے۔

                کافی وقفے کے بعد شیخ رشید صاحب بولے :’’ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اٹھا‘‘، موصوف کے ان فرمودات کے ’’بینَ السطور‘‘یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ سر پر دستِ شفقت کے بغیر حکومت کے توتے کی جان نکل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ چند دن پہلے مایوسی کا مظہر یہ بیان جاری ہوا تھا:’’سزایافتہ لوگوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا ہے‘‘، اسی کی بنیاد پر تجزیہ نگاروں نے رونقیں لگائیں کہ کچھ نہ کچھ ہورہا ہے، مگر جو کچھ بھی ہورہا ہے ، زیرِ زمیں ہورہا ہے، برسرِ زمیں ہمیں صرف حکومتی زعماء کے چہروںکی پژمردگی اوراپوزیشن کے چہروں کی رونقیں نظر آرہی ہیں ، علامہ اقبال بہت پہلے کہہ چکے ہیں:

اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری

شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ

بیچارہ پیادہ تو ہے، اِک مہرۂ ناچیز

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے، شاطر کا ارادہ!

                حکومتِ وقت کا ایک اوربیّن تضاد یہ ہے :’’وزیر اعظم بزعمِ خویش ’’ریاستِ مدینہ‘‘ قائم کرنے کے دعویدار ہیں اور خود کو اُس کا آئیڈیل بناکر پیش کر رہے ہیں ،جبکہ حکومت کے ترجمان اورزبان یعنی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری ببانگ دہل سیکولرازم اور لبرل ازم کے مدعی ہیں ، اسلام اور اہلِ دین سے بے حد بے زار ہیں ،اپنی نفرت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، پس وزیر اعظم کو چاہیے کہ اپنی خود ساختہ’’ ریاستِ مدینہ ‘‘کے پنجرے سے فواد چودھری کو آزاد کریں اور اسے موقع دیں کہ اپنی لبرل سیکولرجماعت بناکر میدان میں آئیں،پھرآٹے دال کا بھائو معلوم ہوجائے گا، رئیس فروغ نے کہا ہے:

ہرا سمندر گوپی چندر

بول میری مچھلی، کتنا پانی

                علامہ اقبال نے ذہنی اور فکری آزادی اور محکومی کا تقابل ان اشعار میں پیش کیا ہے:

                رِندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات٭ہرچند کہ مشہور نہیں اُن کی کرامات٭خود گیری وخودداری وگلبانگِ اَنا الحق               ٭

   آزاد ہوسالک ،تو ہیں یہ اس کے مقامات٭محکوم ہو سالک ،تو یہی اُس کا ہمہ اُوست٭خود مُردہ وخود مَرقد وخود مرگِ مفاجات

                پس آپ سوچ سکتے ہیں کہ آج کل ہمارے محکوم مزاج سیاست دانوں کے لیے ’’ہمہ اُوست‘‘ کون ہے، آصف علی زرداری صاحب کے عہدِ صدارت میں ’’آج گئے کہ کل گئے‘‘کرتے کرتے حکومت نے پانچ سال گزار ہی لیے تھے ، لگتا ہے کہ موجودہ حکومت  بھی اسی انداز میں پانچ سال گزارلے گی ،کیونکہ سیاست ’’بیم ورجا‘‘ کا نام ہے، اگر امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے تو پھر  ’’مرگِ مفاجات‘‘ کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔الغرض اس امید پر کہ شایدعالَم غیب سے کوئی مدد آپہنچے اور اقتدار کا ہما سر پر آبیٹھے،سیاست میں امکانات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے پڑتے ہیں ،اسی لیے تو کہتے ہیں :’’امید پر دنیا قائم ہے‘‘۔

View : 27593

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.