خواتیمِ بقرہ(حصہ دوم)

                اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے بے ارادہ غلطی صادر ہوجائے تو ہماری گرفت نہ فرمانا، اے ہمارے رب! ہم پر بھاری بوجھ نہ ڈال جیسے کہ تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے، ہمیں معاف فرمادے، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما،تو ہمارا آقا ہے، تو کافروں کے خلاف ہماری امداد فرما، (البقرہ:286)‘‘۔

                نسیان کے معنی ہیں:’’بھول جانا‘‘، نماز کی بابت آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو نماز کے وقت سویا رہ جائے یا نماز پڑھنا بھول جائے، تو جوں ہی یاد آئے اورنیند سے بیدار ہوجائے تونماز پڑھ لے، (مصنف ابن ابی شیبہ:4738)‘‘، یعنی اس پر گناہ نہیں ہے۔ روزے کی بابت فرمایا: ’’جس نے روزے کی حالت میں بھول کر کھالیا یا پی لیا (یعنی اُسے اپنا روزہ دار ہونا یاد نہ رہا)،تواپنا روزہ پورا کرے، (یوں سمجھے کہ )اللہ نے اُسے کھلایا اور پلایا ، (صحیح مسلم:1155)‘‘۔یعنی اس سے نہ اُس کا روزہ ٹوٹا ، نہ اس کے اجر میں کمی واقع ہوئی ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے (تین چیزوں کے اخروی مواخذے سے )درگزر فرمایا ہے، یعنی خطا ،نسیان اور جس چیز پر اُسے مجبور کردیا گیا ہو،(ابن ماجہ: 2043)‘‘۔

                اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اورتم پر ان امور پر کوئی گناہ نہیں جو تم سے خطاء ً  سرزد ہوں ، لیکن جس (گناہ )کا تم قصد کرلو (تو اس پر مواخذہ ہے)اور اللہ بہت بخشنے والا،نہایت مہربان ہے، (الاحزاب:5)‘‘۔البتہ خطا پر شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں، مثلاً:(۱) یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ سورج غروب ہوگیا ہے، لیکن بعد میں پتا چلا کہ ابھی دن باقی تھا، تو اس پر کفارہ تو نہیں ہے، لیکن قضا روزہ رکھنا ہوگا، (۲) اسی طرح قتلِ خطا کے کفارے کا بیان قرآنِ کریم میں ہے، خطایا تو نیت میں ہوتی ہے:جیسے یہ سمجھ کر فائر کیا کہ سامنے شکار ہے اور وہ انسان نکلا اوریافعل میں ہوتی ہے:جیسے شکار کی طرف نشانہ باندھا اور فائر کردیا اوردرمیان میں اچانک انسان آگیا، قتلِ خطا کے تفصیلی احکام فقہ میں مذکور ہیں۔

                پچھلی امتوں پر اُن کی سرکشی کی وجہ سے بعض بھاری احکام عائد کیے گئے تھے، مثلاً: بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا کی ، تو انھیں توبہ کاجو حکم ہوا ،قرآنِ کریم نے اسے بیان کیا ہے:’’اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی امت کو فرمایا: اے میری امت! تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنی جانوںپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم اپنے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں توبہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو ،یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول فرمائی ، بے شک وہی بہت توبہ قبول فرمانے والا ، نہایت مہربان ہے، (البقرہ:54)‘‘۔ اسی طرح اُن کی سرکشی کے سبب بعض حلال چیزوں کو بنی اسرائیل پر حرام کردیا گیا تھا، ان پر پچاس نمازیں فرض تھیں، زکوٰۃ میں چوتھائی مال کو ادا کرنا فرض تھا، اگر اُن کا کپڑا ناپاک ہوتا تو اُسے کاٹ کر پھینکنا پڑتا، نیز وہ گناہ کرتے تو اُسے عیاں کردیا جاتااور اس طرح ان کی رسوائی ہوتی، وہ صرف عبادت گاہ میں نماز پڑھنے کے پابند تھے، مالِ غنیمت اور صدقات اُن کے لیے حلال نہیں تھے، تیمم کی سہولت نہیں تھی، ہفتے کے دن شکار کی ممانعت تھی، بعض گناہوں کی پاداش میں ان کی صورتیں مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنادیا گیا،لیکن صورتیں مسخ ہونے کے بعد وہ مرگئے ، اس سے ان کی کوئی نسل جاری نہیں ہوئی کہ جس سے ہندومذہب کے نظریۂ انتقالِ ارواح یاتناسخِ ارواح یا اواگوَن یاTransmigration of soulکے عقیدے کو ثابت کیا جائے کہ روحیں نئی نئی جُون میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور یہی اُن کے لیے صورتِ ثواب یا عذاب ہوتی ہے۔

                  امتِ خیرالانام کو رب تبارک وتعالیٰ نے خود یہ دعا تعلیم فرمائی: ’’اے ہمارے رب! ہم پر (احکام کا) وہ بوجھ نہ ڈال جو تونے ہم سے پہلی امتوں پر ڈالا، اے ہمارے رب! ہم پر (آزمائشوں اور احکام کا)وہ بوجھ نہ ڈال ، جس سے عہدہ برآ ہونے کی ہم میں طاقت نہیں ہے‘‘، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو ان کلمات میں تعلیم فرمائی:’’اے لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرواور اللہ سے عافیت کا سوال کرو، لیکن جب (قضائے الٰہی سے) تمہارادشمن سے سامنا ہوجائے توپھر (جنگ کی مشقت پر) صبر کرواور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے، (بخاری:2966)‘‘۔ اس حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی مصیبت کو نہ خود دعوت دینی چاہیے اور نہ اس کی تمنا کرنی چاہیے ، بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگنی چاہیے ، لیکن اگر قضائے الٰہی سے مصیبت نازل ہوجائے ، تو پھر جزع وفزع ، کم ہمتی اور بزدلی کے بجائے صبرواستقامت کے ساتھ جرأت وہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور باطل کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا چاہیے، نیز اللہ تعالیٰ سے نصرت وفتح کی دعا مانگنی چاہیے ، حدیث پاک میں ہے:

                ’’عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں: انھوں نے اپنے والد سے کہا: اے ابا جان! میں صبح وشام آپ کو تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے ہوئے سنتا ہوں: ’’اے اللہ! مجھے میرے بدن میں، میری سماعت میں اورمیری بصارت میں عافیت عطا فرما،تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،ان کے والد نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح صبح وشام یہ دعائیں مانگتے ہوئے سنا ہے،تو میں چاہتا ہوںرسول اللہ ﷺ کی سنّت پر عمل کروں، حضرت عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ صبح وشام تین مرتبہ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ ! میں کفر سے، فقر سے اور عذابِ قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، سو تم بھی یہ دعائیں مانگا کرو، میں بھی چاہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی سنّت پر عمل کروںاور رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے:مصیبت زدہ کو یہ دعا مانگنی چاہیے:’’اے اللہ! میں تیری رحمت پر یقین رکھتا ہوں، مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما(یعنی میری کارسازی فرما)، میرے تمام احوال کی اصلاح فرما، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، (ابودائود:5090)‘‘۔

                حضرت ابوعبیدہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد حضرت ابوبکر کھڑے ہوئے اور کہا: (ہجرت کے)پہلے سال رسول اللہ ﷺ میری جگہ کھڑے ہوئے تھے اور فرمایاتھا: اللہ سے عافیت کا سوال کرو ، کیونکہ کسی بندے کو اللہ کی طرف سے عافیت سے بہتر کوئی نعمت عطا نہیں کی گئی اور سچائی اور نیکی کو لازم پکڑو،کیونکہ یہ دونوں جنت میں لے جانے کا سبب ہیں اور جھوٹ اور نافرمانی سے بچ کر رہو، کیونکہ یہ دونوں چیزیں جہنم میں لے جانے کا سبب بنتی ہیں، (مسند احمد:46)‘‘۔

                پچھلی امتوں پر آزمائشوں کا ذکر قرآنِ کریم میں ایک سے زائد مقامات پر بیان ہوا ہے، غزوۂ احزاب کے موقع پر جب پورے عالَمِ عرب کے قبائل مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے اُمڈ آئے تھے اور نہایت مشکل وقت تھا، مدینۂ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودی گئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود اس میں حصہ لیا تھا، اُن حالات کی سنگینی کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(۱) ’’اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے، جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے تم پر حملہ آور ہوئے، جب تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ (کی نصرت کے ) بارے میںطرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے، اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور ان کو شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا تھا اور اس وقت منافق اور جن لوگوں کے دلوں میں (شک کی) بیماری تھی، یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو بھی وعدہ کیا، وہ محض فریب تھا، (الاحزاب:9-12)‘‘، (۲)’’کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے حالانکہ ابھی تک تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں، ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ (اس قدر) جھنجھوڑ دیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکاراٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، سنو!بے شک اللہ کی مدد عنقریب آئے گی، (البقرہ:214)‘‘۔

                پس لازم ہے کہ مسلمانوں پر جب مشکل وقت آئے تو وہ تمام تر دستیاب ظاہری اسباب اختیار کرنے کے باوجود فیصلہ کن کامیابی کے لیے اپنی قوتِ بازو اور اسبابِ ظاہری پر بھروسا نہ کریں ،بلکہ اللہ کی نصرت ،تائید غیبی اور اسبابِ غیب پر توکل کریں، کیونکہ جب اس کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے تواسباب مؤثر ہوجاتے ہیں، حوصلے بلند ہوجاتے ہیں، دشمنوں کی ہمت پست ہوجاتی ہے، حالات موافقت میں بدل جاتے ہیں ،احادیث مبارکہ میں ہے:

(۱)’’سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں: میں بدر کے دن نبی ﷺ کے سامنے اپنی کمان میں تیر رکھتا اور یہ دعا پڑھ کر تیر چلاتا: اے اللہ! ان کے قدموں لڑکھڑا دے، ان کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردے، ان کو انجامِ بد سے دوچار فرمادے، تو نبی ﷺ فرماتے: اے اللہ ! سعد کی دعا قبول فرما، (المعجم الکبیر للطبرانی:318)‘‘،(۲)’’عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ رکوع کے بعد یہ دعا کرتے :اے اللہ!ہماری، سارے مومنین ،مومنات ، مسلمین اور مسلمات کی مغفرت فرما، ان کے دلوں کو جوڑ دے، ان کے درمیان اصلاح فرما، اپنے اور اُن کے دشمنوں کے خلاف نصرت عطا فرما، اے اللہ! کفار اور اُن اہلِ کتاب پر لعنت فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں ،تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، تیرے محبوب بندوں سے لڑتے ہیں، اے اللہ! ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما، ان کے قدموں کو ڈگمگادے اور ان پر وہ عذاب نازل فرما جو مجرموں سے ٹلتا نہیں ہے ، پھر بسم اللہ پڑھ کر قنوت کی معروف دعا پڑھتے ، (السنن الکبریٰ للبیہقی:3143)‘‘۔

View : 680

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.