خبروں کا سیلاب

                آمریت کے دور میں خبروں کا قحط ہوتا ہے، قبض ہوتا ہے، خبریں روکی جاتی ہیں اورچھَن کرباہر آتی ہیں اورایسے میں افواہوں کی سرسراہٹ ہر سو سنائی دیتی ہے۔ آمر بظاہر انتہائی طاقتور نظر آتے ہیں ، اقتدار پر اُن کی گرفت مضبوط نظر آتی ہے،لیکن اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہوتے ہیں ۔ مگر ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں خبروں کا ایک سیلاب بلا خیز ہے، سچ جھوٹ میں تمیز مشکل ہے، اسی لیے قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’اے لوگو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لے کر آئے تو (ردِّعمل سے پہلے)اس کی تحقیق کرلیا کرو ، مبادا تم نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچائو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے، (الحجرات:6)‘‘۔

                الیکٹرانک میڈیا کے دور میں خبروں کا سیلاب رواں ہوگیا ہے،گزشتہ کچھ عرصے سے مقتدرہ کی نادیدہ قوتوں نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنا شروع کیا ، پھر بعض ٹی وی چینلوں پر دبائو ڈال کر اُن کے ناپسندیدہ اینکر پرسنز اور صحافیوں کو اُن کے مناصب سے ہٹایاگیا،کیونکہ ابلاغ کے یہ ادارے دبائو برداشت نہ کرسکے اور مقتدرہ کی نظر میں ناپسندیدہ صحافیوں کو اپنے روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ اس کے بعدہر ایک نے حسبِ توفیق اپنے اپنے یوٹیوب چینل کھول لیے ،اندر کی خبروں، تبصروں اورسازشوں کا ایک سیلابِ بلا خیز رواں ہوگیا، نہ سچ جھوٹ میں تمیز رہی ، نہ ان خبروں کی صداقت کو جانچنے اور پرکھنے کا کوئی معیار مقرر ہوا ، مُخبر ’’ذرائع‘‘کی کمین گاہ میں مستور ہوگئے، لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے، روزکے حساب سے بلکہ بعض اوقات گھنٹوں اور منٹوں کے حساب سے خبروں اور تبصروں کے نئے ایڈیشن جاری ہونے لگے۔اس سے خبروں اور تبصروں کو روکنے والی با اختیار مقتدرہ کے لیے بھی کوئی خیر برآمد نہ ہوئی،بلکہ مناصب اور اہلِ مناصب کے اعتبار اور حرمتوں پر بھی سوال اٹھنے لگے ، پریس بریفنگ اور پریس اسٹیٹمنٹ سے اس کی تلافی کی توقع رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ،ایسے ہی ماحول میں بہت سے مخالف طبقات اپنا اپنا ایجنڈا لے کر میدان میں مورچہ لگالیتے ہیں۔الغرض با اختیار لوگوں کے بہت سے غیر دانشمندانہ اقدامات بیک فائر ثابت ہوتے ہیں، یعنی ان سے مطلوبہ نتائج کے بجائے برعکس نتائج برآمد ہوتے ہیںاور وہ مفید ثابت ہونے کی بجائے ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں اور لوگ اس محاورے پر اعتبار کرنے لگتے ہیں : ’’کوئی بات سچ نہیں تاوقتیکہ حکومت کی جانب سے اس کی تردید آجائے‘‘، یعنی جب کسی خبر کی سرکاری تردید کو اس کی تصدیق سمجھا جانے لگے ، تو یہ بے اعتباری کی انتہا ہوتی ہے۔

                صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو کفارِ مکہ سے ایک معاہدہ کرنا پڑا، معاہدے کی بظاہر ناگوار شرائط میں سے ایک یہ تھی : ’’مکۂ مکرمہ سے جو شخص اسلام قبول کر کے مدینۂ منورہ جائے گا، اسے ریاستِ مدینہ میں پناہ نہیں دی جائے گی ، بلکہ اُسے واپس بھیج دیا جائے گا، اس کے برعکس جو مدینہ منورہ سے مرتد ہوکر مکۂ مکرمہ آئے گا، اُسے جبراً واپس نہیں لوٹایا جائے گا‘‘۔ یہ شرط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھی، یک طرفہ تھی، حالات کے جبر کا نتیجہ تھی، اس لیے صحابۂ کرام کو اس پر اضطراب ہوا، لیکن دین کی وسیع تر اور دیرپا حکمت کے تحت رسول اللہ ﷺ  نے اسے ناگواری کے ساتھ قبول فرمایااور اس پر عمل بھی فرمایا، چنانچہ ابھی اس معاہدے کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ ابوجندل بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آئے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا ،انھیں اسلام قبول کرنے کے جرم میں ان کے والد سہیل نے بیڑیاں پہنا رکھی تھیں۔ مسلمان انھیں مرحبا کہنے اور مبارک باد دینے کے لیے اٹھے، اس اثناء میں اس کے والد اُسے مارنے لگے اور کہا: ’’اے محمد! یہ ہمارا پہلا دعویٰ ہے کہ آپ اسے لوٹادیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ہم عہد شکنی نہیں کریں گے، چنانچہ ابوجندل کو لوٹادیا گیا ، اس نے کہا: مسلمانو! میں اسلام قبول کرنے آیا ہوں اور آپ لوگ مجھے مشرکوں کی جانب لوٹارہے ہیں، آپ دیکھ نہیں رہے کہ مجھ پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا: ابوجندل ! صبر کرو اور اللہ سے اجر کی امید رکھو،بے شک اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ دیگر کمزور مسلمانوں کے لیے کشادگی اورنَجات کی سبیل مقدر فرمائے گا ، ہم نے مکے والوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور پیمان باندھا ہے ، سو ہم وعدہ شکنی نہیں کرسکتے،(سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد فِیْ سِیْرَۃِ خَیْرِ الْعِبَاد، ج:5،ص:52)‘‘۔

                محمد بن عمر بیان کرتے ہیں: ابوجندل اور ان کے ساتھ ستّر اشخاص جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا، ابوبصیر سے جاملے، کیونکہ یہ لوگ مدینہ منورہ بھی نہیں جاسکتے تھے اورانھیں واپس اپنی قوم کی طرف جانا بھی پسند نہیں تھا۔ چونکہ ابوجندل قرشی تھے، اس لیے لوگوں نے انھیں رہنما بنالیا اور بنو غِفار ،بنو اسلم ، بَنُوْجُہَیْنَہ اور کچھ اور لوگ ان کے ساتھ مل گئے اور ان کی تعداد تین سو ہوگئی، قریش کا جو بھی تجارتی قافلہ وہاں سے گزرتا ، یہ اُسے پکڑ لیتے اور قتل کردیتے، یہ صورتِ حال قریش مکہ کے لیے مصیبت کا باعث بن گئی،کیونکہ ان کے تجارتی قافلے غیر محفوظ ہوگئے۔چنانچہ قریش نے ابوسفیان کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجااور انہوں نے التجا کی کہ مکۂ مکرمہ سے جو بھی اسلام قبول کر کے مدینۂ منورہ آئے، آپ اُسے مدینۂ منورہ ہی میں روک لیں ، ہم اس شرط کو واپس لیتے ہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے ابوبصیر اور ابوجندل کو لکھاکہ اب آپ لوگ اور جتنے دوسرے لوگوں نے آپ کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے، مدینۂ منورہ چلے آئیں اور قریش کے تجارتی قافلوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ جب رسول اللہ ﷺ کا یہ مکتوبِ گرامی ابو بصیر کو پہنچا تو وہ جاں بلب تھے، انھوں نے یہ مکتو ب پڑھا، یہ مکتوب ان کے ہاتھ ہی میں تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا، ابوجندل نے انھیں وہیں دفن کیا اور ان کی قبر کے قریب ایک مسجد بھی بنالی اور ابوجندل اور ان کے ساتھ کچھ لوگ مدینۂ منورہ آگئے اور باقی اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے اور اس طرح قریش کے تجارتی قافلوں کو امان ملا، (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد فِیْ سِیْرَۃِ خَیْرِ الْعِبَاد، ج:5،ص:66)‘‘۔

   الغرض معاہدۂ حدیبیہ کی وہ شرط جو کفار نے اپنے مفاد میں لگائی تھی اور بظاہر مسلمانوں کے لیے نقصان اور تکلیف کا باعث تھی، آخرِ کار وہ ان کے لیے بیک فائر ثابت ہوئی اور پھرانھوں نے یک طرفہ طور پر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں جاکر اس شرط کو واپس لینے کی درخواست کی، اسی کو کہتے ہیں:’’عَدُوّ شرے برانگیزد کہ خیرِ مادراںباشد‘‘، یعنی دشمن شر برپا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اس میں سے ہمارے لیے خیر کی صورت برآمد فرمادیتا ہے، اسی کو انگریزی میں ’’Blessing in Disguise‘‘ کہتے ہیں۔

                عربی کے علمِ معانی میں خبر کی تعریف یہ ہے: ’’خبر وہ ہے جو صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھے‘‘، یعنی جب تک اس کی تصدیق یا تردید شواہد سے نہ ہوجائے ، اس کی حیثیت کا تعیّن نہیں ہوسکتا، اسی لیے خبر اور شہادت میں فرق ہے کہ شاہد حلفیہ کہتا ہے:’’میں نے اس واقعے کو اپنے سامنے رونماہوتے ہوئے دیکھا‘‘،اسے ’’عینی شہادت‘‘ کہتے ہیںیاوہ کہتا ہے: ’’میں نے فلاں سے یہ واقعہ سنا ہے‘‘،اسے ’’سن کر شہادت دینا یا سمعی شہادت کہتے ہیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے سنی سنائی بات کو تحقیق وثبوت کے بغیر پھیلانے سے منع فرمایا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے،(ابوداوٗد:4992)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جب اُن کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو وہ اُسے پھیلادیتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول یا اپنے میں سے صاحبانِ اختیار کوپیش کرتے تو ان میں سے خبر کی تہہ تک پہنچنے والے ضرور اس کی (حقیقت )جان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند لوگوں کے سواضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے،(النسآء:83)‘‘،یعنی حربی حکمتِ عملی کے ماہرین ایسی خبروں کا تجزیہ بہتر طور پر کرسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں احتیاطی تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں،             ہمارے ہاں بعض معاملات پسِ پردہ چل رہے ہوتے ہیں، داغ دہلوی نے کہاہے:

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

آج کل بین الاقوامی سیاست میں بھی یہ شعار رائج ہے ، اسے ’’بیک ڈور ڈپلومیسی ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے، اب مشکل یہ ہے کہ اصحابِ معاملہ جن معاملات کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں یا پوشیدہ سمجھتے ہیں، وہ پوشیدہ رہ نہیں پاتے، کہیں نہ کہیں سے خبر چھَن کر باہر آجاتی ہے ، آج کل اسے خبر کا لیک ہونا کہتے ہیں، پھر اس میں ظنّ وتخمین ، قیاسات اور خواہشات کا اضافہ ہوتارہتا ہے  اور اس کا تدارک مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ جب کسی بات کی قطعی تردید کی جائے ، لیکن اس کے کوئی نہ کوئی شواہد کسی کے پاس ہوں ، اگرچہ خوف کی بنا پر وہ پیش نہ کرسکتا ہوتو پوری تردید بے اثر ہوجاتی ہے، جس طرح مقتدر طبقات کے سیاسی امور سے لا تعلقی کا دعویٰ کسی ذی شعور کو ہضم نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ خوف کے سبب سانسیں رکی ہوئی ہوں ، امیر مینائی نے کہا ہے:

قریب ہے یارو روزِ محشر، چھُپے گا کُشتوں کا خون کیوں کر

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

                سو 2018کے عام انتخابات کے کُشتگان میدانِ سیاست میں بہت ہیں، مگر ثبوت مانگا جائے تو ندارد،اگر قتل کا ثبوت نہ ملے تو بھی مقتول تو موجود ہے، سو وارداتِ قتل کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کسی پر ایسی بیتی ہو جو کلیم عاجز پر بیت گئی:

دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو ،کہ کرامات کرو ہو

پس کلیم عاجز کے بقول کرامات کا زمانہ ہے،واردات بھی ہوجاتی ہے اور پیچھے نشان بھی نہیں چھوڑا جاتا، نظر آجائے تو پہلو بچا کے چلنا پڑتا ہے ،آنکھیں بند رکھنی پڑتی ہیں، کون ہے جو کچھار کے خوابیدہ شیر کو جگاکر زندگی کا خطرہ مول لے، فارسی شاعر نے کہا ہے:

ہر بیشہ گماں مبرکہ خالی ست

 شاید کہ پلنگ خفتہ باشد

                ترجمہ:’’ہر جنگل کو خالی مت سمجھو ،شاید کہ وہاں کوئی شیر سورہا ہو‘‘۔

View : 867

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.