فرق جانیے!

                تحریکِ طالبانِ افغانستان کوئی مدارس کے طلبہ کا گروہ یا جتھّا نہیں ہے، یہ افغانیوں کی ایک قومی اور ملّی تحریک ہے ، اس کے مقاصد میں نفاذِ اسلام کے ساتھ ساتھ غاصب قوتوں سے حریتِ وطن بھی ہے، اس میں افغان معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان اس سے مختلف چیز ہے، یہ دہشت گرد ہیں ، پاکستان میں کوئی غیر ملکی قوت قابض نہیں ہے، اہلِ پاکستان کا اپنا نظامِ حکومت ہے اور دنیا کی ہر حکومت کی طرح اس سے اتفاق اور اختلاف کرنے والے موجود ہیں، دستورِ پاکستان آئین وقانون کی حدود میں رہتے ہوئے اختلاف کے حق کو تسلیم کرتا ہے، اختلاف کرنے والے بھی اتنے ہی محب وطن تسلیم کیے جاتے ہیں ، جتنا کہ اقتدار پر فائز حکمران طبقہ۔ ایک دوسرے کو غدّار کہنا ہمارے ہاں سیاسی گالی بن چکا ہے، لیکن اس کا استعمال اصطلاحی معنی میں نہیں ہوتا، جیسے ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہاجاتا ہے ، اس طرح غدار بھی کہہ دیا جاتا ہے، سو یہ معمول کی بات ہے، اگرچہ نہیں ہونی چاہیے۔ ٹی ٹی پی یا کسی بھی مسلّح گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ طاقت کے بل پر پاکستان پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنائے یابزورِ طاقت اپنی کوئی پالیسی پاکستان پر مسلّط کرے۔

                امریکی انخلا ء کے اعلان کے بعد طالبان کا چند دنوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لینا اور کابل کے صدارتی محل تک پہنچنا ، سب کے لیے حیرت کا باعث ہے، کہیں بھی کوئی توانا یا دیرپا مزاحمت نہیں ہوئی ، طالبان نے بڑی حکمت سے صورتِ حال کو اپنے حق میں تبدیل کیا ہے۔ طالبان کا موجودہ ایڈیشن بیسویں صدی کے آخری عشرے کے ایڈیشن سے کافی مختلف ہے، انھوں نے طویل مزاحمت اور عزیمت کابیس سالہ دور گزارا ہے، بگرام اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں میں ناقابلِ تصور اذیتوں کو برداشت کیا ہے، کئی سو افرادکنٹینروں کے لاک اپ میں دم گھٹنے سے سسک سسک کر موت سے ہمکنار ہوئے۔موجودہ دور میں جیل خانوں میں قید مجرموں اور جنگی قیدیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں،لیکن یہ سب حقوق سے محروم کردیے گئے تھے۔ آج کے طالبان کوجدید دنیا کے تقاضوں کا ادراک ہے ، کمال کا اعتماد ہے ، انداز جارحانہ نہیں بلکہ مفاہمانہ ہے ، اب وہ اپنے علاوہ دوسرے طبقات کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں اور اتفاق رائے کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اقتدار پر غلبہ بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ بجا ہے۔

                امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے اعلان اوراس پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد تحریکِ طالبانِ افغانستان نے سرعت کے ساتھ پیش قدمی کی ،وہ افغانستان کے بیشتر علاقے پر قابض ہوچکے ہیں، اس طرح کے شواہدبھی سامنے آرہے ہیں کہ کئی مقامات پر اشرف غنی حکومت کے عہدیدار اور افواج خود طالبان کے سامنے سرنگوں ہوگئے یا اُن سے جاملے یا اُن سے مزاحمت نہیں کی، جبکہ امریکی صدر بائیڈن کے بقول افغان فوج جدید اسلحے سے لیس امریکہ و نیٹو کی تربیت یافتہ تھی ۔ اس پر گزشتہ بیس سال میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں، ان کے مشاہرے اور آسائشیں بھی پرکشش تھیں ، اس کے باوجود وہ ریت کا ڈھیر ثابت ہوئے۔ اس ناکامی نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا،یہ امریکہ ا ور نیٹو کے لیے بھی سبکی کا باعث بنا، کیونکہ ان کی ساری سرمایہ کاری اور    پیشہ ورانہ تربیت ناکامی سے دوچار ہوئی۔ امریکہ اوراتحادیوں کا ہمیشہ یہ شِعار رہا ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے کوئی اور قربانی کا بکرا تلاش کرتے ہیں ، جس پر ناکامی کاسارا ملبہ ڈال کر وہ اپنی قوم اور اپنے ٹیکس دہندگان کے سامنے سرخرو ہوجائیں۔

                جب تک کسی بات کا حقیقی تجزیہ نہ کیا جائے ، سطحی تجزیے سے نہ حقائق سامنے آتے ہیں اور نہ صحیح نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ تحریکِ طالبان کا ذہن پڑھنے کی ضرورت ہے، اُن کا موقف یہ ہے کہ امریکہ نے طاقت کے بل پر اقتدار اُن سے چھینا تھایا انھیں اقتدار سے بے دخل کیا تھااور وہ بیس سال تک اپنے وطن کو غاصب وقابض قوتوں سے نجات دلانے کے لیے مصروفِ جہاد رہے، بے پناہ قربانیاں دیں ، بگرام اور گونتاناموبے کے اذیت خانوں میں یاتو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اتنی اذیتیں برداشت کیں کہ خود اذیت پہنچانے والوں کا حوصلہ جواب دے گیا، انھیں کنٹینروں میں مقفّل کر کے اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا، اس لیے ان کے نزدیک وہی امریکی انخلا ء کے بعد افغانستان کے اقتدار کے حق دارہیں ، آخر ویتنام سے امریکی انخلاء کے بعد اقتدار انہی قوتوں کو ملا تھا جو طویل عرصے تک امریکہ کے ساتھ برسرِپیکار رہے ۔ امریکی فوجی اس لیے بھی نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہے کہ اُن کے پاس اپنے وطن سے ہزاروں کلومیٹر دور ایک غیر ملک میں اپنی جانیں قربان کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، اسی طرح اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جو مقامی افغان فوج انہوں نے تیار کی، وہ بھی وقت آنے پر ہمت ہار بیٹھے ۔

                ہمارے ہاں یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی اداروں میں بھی معروضی تحقیق کا کوئی حقیقت پسندانہ نظام نہیں ہے، ایک ہی جگہ بیٹھے بٹھائے ادھر ادھر سے منتشر مواد یکجا کر کے مقالہ مرتب کرلیا جاتا ہے یا کسی کا علمی سرقہ کرلیاجاتا ہے ، پی ایچ ڈی کی سطح پر ایسے علمی سرقے کی کئی مثالیں ہمارے ملک کی جامعات میں موجود ہیں، اعلیٰ عدالتوں میں اس کی بابت مقدمات بھی دائر ہوتے رہے ہیں۔ شاید مغرب میں طالبان کی جدوجہد پر حقیقت پسندانہ تحقیق کا کوئی پروجیکٹ قائم ہو، اُس کے لیے فنڈز مختص ہوں اور لائبریری میں بیٹھ کر تحقیق کرنے کے بجائے افغانستان کے طول وعرض میں جاکر برسرِ زمین جائزہ لیا جائے ، ہر علاقے میں مختلف طبقات کے نمائندہ افراد کے انٹرویو لیے جائیں ، ان کے دانشوروں کی آراء حاصل کی جائیں ۔یہ بھی جائزہ لیا جائے کہ امریکہ اور اتحادیوں کے خرچ کیے ہوئے دوہزار دو سو ساٹھ ارب ڈالر میں سے برسرِ زمین کتنا خرچ ہوا ، کیا ان وسائل کی نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم کا کوئی شفاف نظام تھا، کیا چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر دودراز کے اضلاع ، قصبات اور دیہاتوں تک اس سرمائے کا کوئی فیض پہنچایا بس امریکی اتحادی اسٹبلشمنٹ اور ان کی مسلّط کردہ افغان اسٹبلشمنٹ ہی اس کا بڑا حصہ لے اڑے۔ ترجمانوں ، مخبروں اور ٹھیکیداروں نے کتنا سمیٹااور آیا سرمائے کی اس ریل پیل نے امریکی افواج کے نظم میں بھی کرپشن اور عشرتوں کو فروغ دیا۔ یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ مقامی لوگوں کی دینی ، تہذیبی اور ثقافتی روایات سے آنکھیں بند کر کے اپنی اقدار کو نافذ کرنے سے نچلی سطح پر عوام کے دلوں میں کسی درجے میں پزیرائی ملتی ہے۔

                نائن الیون کے بعد امریکہ اور مغرب کی مجالسِ مفکرین ، این جی اوز اور ان کے کارندوں نے بے انتہا وسائل سمیٹے۔ لارنس آف عربیہ نے تو مذہبی اورمقامی وضع قطع اختیار کر کے دینی عالم اور ہمدرد کے روپ میں شرقِ اوسط میں نفوذ کیا تھا، دامِ ہمرنگِ زمیں بچھایا تھا، جس طرح ابلیس نے مخلص اور خیرخواہ کے روپ میں حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو پھُسلایاتھا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اس نے ان دونوں کو قسمیں کھاکر یقین دلایاکہ میں تمہاراخیرخواہ ہوں، (الاعراف:21)‘‘۔ نائن الیون کے بعد ہمارے ملک میں بھی جو این جی اوز کا جال بچھایا گیا ، مغربی تہذیب کے علَم بردارنوجوان لڑکے لڑکیاں مغربی وضع قطع اختیار کر کے عشرتوں کے ماحول میں لوگوں کے درمیان گئے تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا،آیا نچلی سطح پر عوام نے انھیں دل وجان سے قبول کیا، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز بعض جعلی مفکرین نے مغرب کو یہ جھانسا دیا کہ سارا قصور جہادی اسلام کا ہے، لہٰذا اب صوفی اسلام کی مارکیٹنگ شروع کرنی چاہیے،  صوفی منفعل مزاج (Submissive)ہوتے ہیں، اثرات جلد قبول کرتے ہیں، ان کے لیے روحانی حظّ وسرور (Spiritual Enjoyment) کے مواقع فراہم کرنا ہی کافی ہوتا ہے، یہ نہ کسی سے الجھتے ہیں، نہ نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں، یہ اچھے بچے ہوتے ہیں۔ لیکن اُس دور میں جب مغربی مفکرین سے بات ہوتی اور وہ صوفی اسلام کو فروغ دینے کی بات کرتے ، تو میں اُن سے کہتا: ’’یہ آپ کا عجب فطری تضاد ہے کہ روحانی حظّ وسرور کے دلدادہ کو تم میدانِ عمل کے مجاہد کے مقابل کھڑا کر کے ان سے ٹکرانا چاہتے ہو، یعنی اپنی جنگ اُن سے لڑوانا چاہتے ہو، یہ نہیں ہوسکتا اور بالآخر نہ ہوسکا‘‘، بس کچھ لوگوں کو امریکہ اور یورپ کے سفر کرائے گئے ، کانفرنسیں اور سمینار منعقد ہوئے اور ’’کھیل ختم، پیسا ہضم‘‘پر سلسلہ اختتام کو پہنچا۔

                میں اُن سے کہتا:’’جو نتائج تم حاصل کرنا چاہتے ہو، وہ تمہارے اس مفروضہ اور مزعومہ تصوف سے حاصل نہیں ہوسکتے، نہ ہماری اپنی ریاستیں حقیقی تصوف کو درجۂ قبولیت دینے کے لیے تیار ہیں، اس کے لیے تومجدِّد الف ثانی کے تصوف کا اِحیاکرنا ہوگا، جو وقت کے صاحبِ اقتدار کو چیلنج کرے ، علامہ اقبال نے مجدِّد ِالفِ ثانی کے بارے میں کہا تھا:

حاضِر ہُوا میں شیخِ مجدّد کی لحَد پر

وہ خاک کہ ہے، زیرِ فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذرّوں سے ہیں، شرمندہ ستارے

اس خاک میں پوشیدہ ہے، وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھُکی جس کی، جہانگیر کے آگے

جس کے نفَسِ گرم سے ہے، گرمیِ اَحرار

وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں

اللہ نے بروقت کیا، جس کو خبردار

                اسی طرح غوث الاعظم مُحی الدین عبدالقادر الجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس خلیفۂ وقت جب اشرفیوں کی تھیلی لے کر آیا تو انھوں نے اُسے نچوڑا، اس سے خون رسنے لگاتو انھوں نے کہا: ’’لوگوں کا خون چوستے ہواور ہمیں نذرانے لاکردیتے ہو، اے اللہ! انھیں ہدایت عطا فرما یا ان کی شوکت کو توڑ دے‘‘۔پس یہ غوث الاعظم کا تصوّف تھا، جو آج کل کے قادریوں میں مفقود ہے یا پھر چیچنیا میں امام شامل کی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگایا ترکی میں بدیع الزماں سعید نورسی کی تحریک کا جائزہ لینایا اُن صوفیہ کے کردار کا مطالعہ کرنا ہوگا جنھوں نے سوویت یونین کے پچھتر سالہ کمیونزم کے جبر میں پسِ پردہ رہتے ہوئے کسی نہ کسی انداز میںدینِ اسلام کو زندہ رکھااور اُسے مرنے نہ دیا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے کہا تھا:’’میں نے پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر کے لشکرِ اسلام کے سپرد کردیا‘‘۔

View : 817

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.