شَرحِ نُمُوُّ: اس کے معنی ہیں: ’’افزائش کی شرح ‘‘، اسے انگریزی میں کسی چیز کا ’’Growth Rate‘‘ کہتے ہیں۔ لفظِ ’’نُمُوّ‘‘ نون اور میم کی پیش اور واؤ پر تشدید اور پیش کے ساتھ ہے، ایک ماہرِ معیشت ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے اس لفظ کو ’’نَمُوْ‘‘بول رہے تھے، جو درست نہیں ہے۔
عَدُوُّ: لفظِ ’’عَدُ وُّ‘‘ وائو کی تشدید اور پیش کے ساتھ ہے، اسے اردو میں عام طور پر وائو کے جزم کے ساتھ ’’عَدُوْ‘‘ بولتے ہیں ، جو درست نہیں ہے، فارسی کا مقولہ ہے: ’’عدُوّ شرے برانگیزد کہ خیرمادراں باشد‘‘، یعنی دشمن اپنی طرف سے شر برپا کرتا ہے ، لیکن اللہ کے فضل سے اُس میں ہمارے لیے خیر کی صورت نکل آتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’ إِنَّ الشَّیْْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْن‘‘، ترجمہ: ’’بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، (یوسف:5)‘‘۔
مَدْعُوّ: یہ عربی کا لفظ ہے اور مفعول کا صیغہ ہے ، اس کے معنی ہیں: ’’بلایا گیا‘‘ یعنی جسے کسی تقریب یا دعوت میں بلایا گیا ہو، جیسے ’’اس تقریب میں صدرِ پاکستان بھیمَدْعُوّ ہیں‘‘،اس سے تقریب کی شان دوبالا کرنی مقصود ہوتی ہے، ہمارے ہاں اُردو میں اسے وائو کے جزم کے ساتھ ’’مَدعُوْ‘‘ بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔
مُدَّعَا: اس کے معنی ہیں:’’ مقصود، مقصد، غرض، مطلب، مراد، منشا، خواہش‘‘۔غالباً اسے ہندی والوں نے عربی سے ’’مُھَنَّد‘‘ کردیا، یعنی ہندی لفظ بنالیااور اب ہمارے ہاں کئی لوگ حتیٰ کہ میڈیا والے بھی اسے ’’مُدَّ ا‘‘ بولتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔
زبان زدِ خاص وعام: زَد کے معنی ہیں: ’’چوٹ، مار، مارا ہوا، (فرہنگ عامرہ)‘‘۔’’صدمہ، ضرب،(قائد اللغات)‘‘۔
’’زَبان زَد‘‘مرکّب لفظ ہے ،ایسے کلمات کو عربی میں ’’بتاویلِ مفرد‘‘کہاجاتا ہے، یعنی یہ مفرد معنوں میں بولا جاتا ہے اوردال کے نیچے زیر خاص وعام کی طرف اضافت کی علامت ہے ،اس کے معنی ہیں: ’’ہر ایک کی زبان پر ہونا ،مشہور ومعروف ہونا، پھیلنا ‘‘۔ پس ’’زبان زدِ خاص وعام‘‘ کے معنی ہیں: ’’وہ بات جوہر خاص وعام کی زبان پر ہو ، یعنی مشہور ومعروف ہو‘‘۔ایک صاحب ’’زبان‘‘ کے نون کے نیچے اضافت کی زیر لگاکر’’زبانِ زدِ خاص وعام‘‘ بول رہے تھے، جودرست نہیں ہے۔
اسکول، کالج، یونیورسٹی، کیس(Case)، چیلنج کو موَرَّد کرلیا گیا ہے، یعنی ان الفاظ کو اردو میں قبول کرلیا گیا ہے، بعض چینلوں پر ٹِکر چل رہے تھے: ’’پنجاب میں اسکولزاور کالجزکل سے کھل جائیں گے‘‘اورلکھا تھا: ’’اپوزیشن کو کیسز کا سامنا ہے‘‘، نیز لکھا جاتا ہے: ’’ہمیں جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔ ہماری نظر میں جب ان الفاظ کو اردو میں قبول کرلیا گیا ہے ، تواردوکی طرز پر اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، کیسوںاور چیلنجوں لکھنا اور بولنا چاہیے، اطہر ہاشمی صاحب نے یہی لکھا تھا، مجھے اس سے اتفاق ہے۔ لفظِ چیلنج مفرد اور مرکب دونوں صورتوں میں استعمال ہوسکتا ہے ، مثلاً: ’’آج کل نئے نئے چیلنج سامنے آرہے ہیں‘‘، یعنی اس کی صفت مفرد ہو تومفرد معنوں میں آئے گا اور صفت جمع ہو تو جمع کے معنی میں آئے گا‘‘۔
اَجمل ، اَکمل ، اَحسن ،اَہم، اعلیٰ، اکبر وغیرہ عربی میں تفضیلِ کُل کے صیغے ہیں، ان کے معنی بالترتیب ’’حسین ترین، کامل ترین، حسین ترین،نہایت ضروری ،بہت مشکل ، بلند ترین اور سب سے بڑا‘‘ہیں۔ الغرض ان کلمات میں تفضیلِ کُل یعنی Superlative Degreeکے معنی موجود ہیں، ہمارے ہاں ان کے ساتھ جو ’’ترین ‘‘کی صفت لگائی جاتی ہے، یہ زائد ہے ، البتہ اسے تاکید کے طور پر لیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ رائج ہوگیا ہے۔
مُتَجَنِّسْ : ٹی وی پر Transgenderکے لیے ’’مُتَجَنِّس‘‘کا لفظ پہلی بار سننے اور پڑھنے کو ملا، Genderکے معنی تذکیر وتانیث اور نر اور مادہ کے ہیں،عربی میں اس کے لیے ’’صِنْف‘‘ بھی آتا ہے،’’اَلْمُنْجِدْ‘‘کے انگلش عربک ایڈیشن میں Gender کے معنی ’’جنس ‘‘بھی لکھے ہیں ، اردو میں بھی جنس استعمال ہوتا ہے۔ اس کی رُو سے ’’مُتَجَنِّس‘‘کے معنی ہوں گے: ’’کسی خاص جنس کو اختیار کرنے والا‘‘، کیونکہ Transgender actمیں خواجہ سرائوںکو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو جس جنس میں چاہیں شامل کرلیں، یعنی یہ نہیں ہے کہ قدرت نے انھیں کس ساخت پر پیدا کیا ہے، بلکہ یہ اُن کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہم جولائی2019میں ’’خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کا بِل اور مُضمَر خطرات‘‘کے عنوان سے دو کالم لکھ چکے ہیں، تاہم معنوی اعتبار سے ’’مُتَجَنِّس‘‘کی اصطلاح اچھی ہے۔ دراصل یہ بابِ ’’تَفَعُّل‘‘ کا صیغہ ہے، اس کی خصوصیت’’ تکلف کے ساتھ کسی چیز کو اختیار کرنا‘‘ ہے، تکلّف، تصنُّع اورتصوُّف اسی سے آتا ہے۔
مُتَشَاعر: شعر کہنے والے کو ’’شاعر‘‘ کہتے ہیں ، شعرکی ساخت یا قافیہ بندی اور وزن کی رعایت اُس کے مزاج میں ہوتی ہے۔ اوزان ، بحوراور مضامین میں تنوُّع کے اعتبار سے شاعری کی کئی قسمیں بیان کی گئی ہیں، اشعار میں بعض اوقات غُلوّ اور مبالغہ آرائی بھی بہت ہوتی ہے، بعض شعراء کا کلام جنس زدہ ہوتا ہے ، بعض کی فکر میں الحاد ہوتا ہے ، اسی لیے قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’شعراء کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں، (الشعراء:224)‘‘۔ بعض شعراء کا کلام حکمت ودانش سے مزیّن ہوتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بعض شعروں میں حکمت ودانائی کی باتیں ہوتی ہیں،(بخاری:6145)‘‘۔ لیکن متشاعر اُسے کہتے ہیں جو تکلّف کے ساتھ شاعر بننے کی کوشش کرتا ہے ۔
ہِدایت: یہ لفظ ’’ہ‘‘ کی زیر کے ساتھ ہے ،اس کے معنی ہیں:’’رہنمائی ‘‘، اس کی جمع ’’ہِدایات‘‘ہے، کئی حضرات اسے ’’ہ‘‘ کی زبر کے ساتھ ’’ہَدایات‘‘ پڑھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
مُطِیْعُ اللّٰہ: لفظِ ’’مُطِیع‘‘ میم کی پیش کے ساتھ ہے،اس کے معنی ہیں: ’’اطاعت کرنے والا‘‘، ’’مُطِیْعُ اللّٰہ‘‘ کے معنی ہیں: ’’اللہ کی اطاعت کرنے والا‘‘، یہ اچھا بامعنیٰ نام ہے، لیکن نہ جانے کیوں اسے میم کے زبر کے ساتھ ’’مَطیع اللہ‘‘پڑھا اوربولاجاتا ہے جو درست نہیں ہے۔
اِدارہ: یہ لفظ الف کی زیر کے ساتھ ہے، اس سے مراد وہ نظم جس کے گرد کسی معاملے کے امور گھومتے ہیں،اسے انگریزی ڈائریکٹریٹ، ایڈمنسٹریشن ، مینجمنٹ اور ایگزیکٹیو کہتے ہیں، نظام چلانے والے کو مُدیر کہتے ہیں۔اتھارٹی کے معنی تسلُّط ،حجّت اور کنٹرول کے ہیں، ہمارے ہاں اتھارٹی کا ترجمہ بھی ’’اِدارہ‘‘ سے کیے جاتے ہیں، جیسے :ادارۂ ترقیات کراچی/لاہور/ اسلام آباد وغیرہ۔ ہمارے ہاںبعض لوگ لفظِ اِدارہ کو الف کی زبر کے ساتھ تلفظ ’’اَدارہ‘‘ بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے۔’’ل‘‘ کے سکون کے ساتھ لفظ ’’مُلْک‘‘ہے اور ’’ق‘‘ کے سکون کے ساتھ لفظ ’’وَقْت‘‘ ہے، پنجاب میں عام طور پر ’’ل‘‘ کے زبر کے ساتھ ’’مُلَک‘‘ اور’’وَقَتْ‘‘ بولاجاتا ہے، جو درست نہیں ہے اور اس کی اصلاح بھی کوئی مشکل نہیں ہے، بس توجہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ’’ن‘‘ کے زبر کے ساتھ لفظ ’’اَنَس‘‘ ہے، مگر اسے بھی بعض لوگ ن کے سکون کے ساتھ ’’اَنْس‘‘ بولتے ہیں۔
مُضْمَرَات: دوسرے میم کے زبر کے ساتھ’’ مُضْمَر‘‘ کے ایک معنی ہیں:’’پوشیدہ‘‘ اور اس کی جمع ’’مُضْمَرَات‘‘ہے،اس سے مراد یہ ہے کہ اس گفتگو یا اس کلام میں یہ معنی پوشیدہ ہے یا اس کے مابعد اثرات یہ ہیں، ایک اینکر پرسن ’’مُضَمِّرَات‘‘بول رہے تھے ،جو غلط ہے۔اسی مادّے سے ’’ضمیر‘‘ آتا ہے،اس کے معنی ہیں: ’’دل،راز،پوشیدہ،اندیشۂ خیال وغیرہ‘‘ ،انگریزی میں اسے ’’Conscience‘‘کہتے ہیں،قرآن کی اصطلاح میں اسے ’’نفسِ لوّامہ‘‘ کہتے ہیں ،یعنی ’’انسانی ضمیر کا وہ احساس جو اُسے برائی پر ملامت کرتا ہے ،روکتا اور ٹوکتا ہے‘‘۔
تقاضا: تقاضا عربی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں:’’درخواست،مانگ، خواہش،مطالبہ‘‘وغیرہ۔ بعض حضرات اسے ہائے مدوَّر کے ساتھ ’’تقاضہ‘‘ لکھتے ہیں، جو درست نہیں ہے، اس کے مزید مشتقات کی بحث طولانی ہے اور ثقیل ہوجائے گی، اس لیے ہم اس سے احتراز کر رہے ہیں۔
لیک: ’’ Leak‘‘انگریزی لفظ ہے ،اس کے معنی ہیں: ’’سوراخ، دَرز، رسائواورٹپکنا‘‘وغیرہ، یعنی کسی چیز کا رِس کرباہر آنا۔ آج کل اسے ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، یعنی کسی خاص پوشیدہ خبر یا معلومات یا رپورٹ کو دانستہ اِفشا کرنا تاکہ اسے کسی کے خلاف استعمال کیا جاسکے، جیسے پاناما لیکس، ڈان لیکس، وکی لیکس‘‘،’’ میموگیٹ اور واٹر گیٹ‘‘کے ساتھ اگرچہ اسکینڈل کا لاحقہ لگایا گیا تھا، لیکن یہ بھی ایک طرح کی لیکس ہی تھیں۔
ڈیپ اسٹیٹ: Deep Stateسے مرادکسی تنظیم یا کسی حکومت یا فوج کے بااثر عہدیداران یا ارکان جوادارے یا ریاست کے رازداری کے معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں یا اُس میں کسی پالیسی یا حکمت عملی کے تحت ہیرا پھیری کرتے ہیں ۔نصرت جاوید صاحب کا کہنا ہے : ’’سلطنتِ عثمانیہ میں اس کے لیے ’’دریں دولت‘‘ کی اصطلاح رائج کی گئی تھی ، اس کے معنی ہوں گے: ’’Inner State‘‘، یعنی ریاست کے اندر ریاست یا حقیقی بااختیار افرادیا گروہ یا ادارہ وغیرہ ۔فارسی لغت میں اسے ’’دولتِ پنہاں‘‘ یعنی Secret State کہاجاتا ہے۔
تزویراتی گہرائی: اسے انگریزی میں ’’Strategic depth‘‘کہتے ہیں، آج کل اس سے مراد یہ ہے کہ دشمن کے خطرے کو اپنی سرحدوں سے دور رکھا جائے اور جہاں سے خطرہ جنم لیتا ہے یا جہاں ملک کے خلاف سازشوں کا گڑھ ہے، انھیں وہیں کچل دیا جائے یا بے اثر کرنے کی تدبیر کی جائے۔ فوجی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں:’’صنعتی مراکز ،وفاقی وصوبائی دارالحکومتوں ،بڑے بڑے شہروں اور حساس مقامات سے دشمن کی افواج کو دور رکھنا‘‘۔چونکہ امریکہ کے وسائل بے پناہ ہیں، اس کی طاقت کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے ملک کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اپنے اہداف کا تعین کر کے انھیں نشانہ بناتا ہے، اسی نظریے کے تحت اُس نے افغانستان اورعراق و شام وغیرہ پر حملے کرکے تباہ وبرباد کیا۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر تو اس کا کھلا دشمن بھارت موجود ہے،البتہ پاکستان چاہتا ہے کہ اُس کی شمال مغربی سرحد پر اس کے لیے خطرات نہ رہیں ،اس لیے اُسے افغان امور اور کسی حد تک ایران کے معاملات سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔اب امریکہ کے انخلا کے بعد ایک بار پھر افغانستان کا مسئلہ ہمارے لیے حساس ہوگیا ہے ، بھارت ہمیشہ افغانستان کواپنے زیرِ اثر رکھنے کا خواہاں رہا ہے تاکہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ ان نئے ممکنہ خطرات کے پیشِ نظر پوری قوم کی دعائوں کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارے اربابِ حلّ وعقد کوایسی فراست ،جرأت اور قوتِ ایمانی نصیب فرمائے کہ ہمارا ملک بیرونی سازشوں کا ہدف بننے سے محفوظ ہوجائے۔
تزوِیر: تزویر کے لغوی معنی ہیں:’’جھوٹ کو آراستہ کرنا،(المنجد،لسان العرب)،مکرو فریب کرنا،(فرہنگ عامرہ)،مقاصدِ خیر یا شر کے لیے کسی چیز کی اصلاح کرنا، (لسان العرب)‘‘۔ ظاہر ہے دو متحارب قوتیں جب حکمتِ عملی بناتی ہیں، تو ایک کے نزدیک جو خیر ہے، وہ دوسرے کے نزدیک شر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا ترجمہ ’’حکمتِ عملی‘‘ سے کیا جاتا ہے، اس میں سیاسی،اقتصادی اور سفارتی حکمتِ عملی سب آتے ہیں، اس کو ہم’’ تدبیرِ معاملات ‘‘سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔