دعوتِ حق کی تاثیر میں داعی کی اپنی بے عملی اور دوغلا پن یعنی قول وفعل کا تضاد بھی رکاوٹ بن جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلادیتے ہو، حالانکہ تم کتابِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (البقرہ:44)‘‘، نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو خود نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے، (الصف:2-3)‘‘، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
(۱)’’ اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا ،پس اُس کی آنتیں آگ میں نکل رہی ہوں گی اور جس طرح کولہو کا گدھا چکی کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے ، وہ اپنی آنتوں سمیت جہنم کی آگ میں چکر کاٹ رہا ہوگا ۔ پس جہنمی لوگ وہاں جمع ہوں گے اور کہیں گے: اے فلاں صاحب!آپ اس انجام سے کیسے دوچار ہوئے ، آپ تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے، وہ کہے گا: (بے شک )میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا ، لیکن خود اُس نیک عمل سے عاری رہتا تھا اور میں تمہیں برائی سے روکتا تھا ،لیکن خود اس برائی میں مبتلا رہتا تھا ،(اس بناپر میں اس انجام سے دوچار ہوا)،(صحیح البخاری:3267)‘‘،(۲)’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(عام شرعی ضابطہ یہ ہے کہ )اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے عملِ(بد) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتاتاوقتیکہ وہ اپنے درمیان برائی کو (پھیلتا)دیکھیں اور وہ اس کو روکنے پر قدرت کے باوجود نہ روکیں ، سو جب وہ یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کی بدکاریوں کی سزا عام لوگوں کو بھی دے گا،(شرح السنہ للبغوی:4155)‘‘، کیونکہ انھوں نے قدرت کے باوجود ’’نھی عن المنکَر‘‘ کا فریضہ ادا نہیں کیا۔اسی ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’معراج کی رات مجھے (تمثیل کے طور پر)کچھ لوگ دکھائے گئے جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا، میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں، انھوں نے کہا: یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ وہ کتاب ِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہیں توکیا وہ جانتے نہیں ہیں(کہ ان احکام کے پابند وہ بھی ہیں)،(شرح السنہ للبغوی: 4159)‘‘۔
اہلِ کتاب کے علماء میں قول وفعل کے تضاد کی خرابی نفوذ کر گئی تھی ،جسے قرآنِ کریم نے مندرجہ بالا آیات میں بیان فرمایا ہے، بلکہ اُن کی خرابی اس سے بھی کئی درجے بڑھ کر تھی ،حدیث پاک میں ہے:
’’حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل میں پہلے پہل خرابی نے اس طرح نفوذ کیاکہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتاتو اسے اُس کام سے نہ روکتابلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر)اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپ ﷺ نے المائدہ کی آیات 78تا80تلاوت کرکے فرمایا: ’’ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اورتم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کرو گے ،(ابودائود:4336)‘‘۔المائدہ کی مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے:’’بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا ،اُن پر دائود اور عیسیٰ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ جو برا کام کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے، یقینا وہ بہت برے کام کرتے تھے، (المائدہ:78-79)‘‘۔
(۲):’’حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں:آپ ﷺنے فرمایا :’’تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی( بعینہٖ) پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ، تو تُم بھی ان کی پیروی کروگے ، ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ! کیاآپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا : اور کون ؟، ( بخاری : 7320)‘‘۔ ایسا نہیں کہ بلا امتیاز تمام اہلِ کتاب کو ملامت کیا گیا ہو، اُن میں سے اچھے لوگوں کا قرآنِ کریم میں استثناء بھی فرمایا گیا ہے، ارشاد ہوا:’’سب اہلِ کتاب برابر نہیں، اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر قائم ہیں ،وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں، اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ،نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پرسبقت کرتے ہیں، یہ نیک لوگوں میں سے ہیں، (آل عمران:114)‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ عہدِ رسالت مآب ﷺ کے اہلِ کتاب کا بیان ہے۔
قرآنِ کریم میں مسلمانوں کا شعار یہ بیان کیا گیا ہے: ’’مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب اور عظیم حکمت والا ہے، (التوبہ:71)‘‘۔ جہاں دعوتِ حق میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے والے اہلِ ایمان کی تعریف کی گئی ہے ، حدیث پاک میں اس فریضے سے لا تعلق رہنے والوں کے بارے میں شدید وعید بھی آئی ہے:
’’حضرت جابر بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:جن لوگوں کی قوم میں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہواور وہ اس کو تبدیل کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود تبدیل نہ کریں تو موت سے پہلے اللہ انہیں عذاب میں مبتلا فرمائے گا، (سنن ابودائود:4339)‘‘۔ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر سے لا تعلق رہنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر دعوتِ حق کے فریضے سے وہ اسی طرح غافل رہے اور قوم کی بداعمالیوں کا نتیجہ کسی وبال کی صورت میں نازل ہوا ، تو وہ بھی اس سے بچ نہیں سکیں گے، حدیث پاک میں ہے:
حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کی حدود میں (با اثر لوگوں کے بارے میں )بے جا نرمی برتتا ہے اور جو اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ، ایسے لوگوں کی مثال کشتی میں سوار اُس قوم کی سی ہے ،جنہوں نے قرعہ اندازی کی ، کچھ کشتی کی نچلی منزل میں چلے گئے اورکچھ اوپر والی منزل یعنی عرشے پر چلے گئے ،پس جو لوگ کشتی کے نچلے حصے میں تھے، وہ پانی لینے کے لیے کشتی کے اوپر والے حصے کے لوگوں کے پاس سے گزرتے تھے جوانھیں ناگوار محسوس ہوتا تھا ،(اُن کے رویّے سے تنگ آکر )اُن میں سے کوئی کلہاڑی لے کر کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا، پس اوپر والے اس کے پاس آئے اور پوچھا: یہ تم کیا کر رہے ہو،اس نے کہا: تم کو مجھ سے تکلیف پہنچتی ہے اور مجھے پانی لینے کی ضرورت ہے ،پس اگر اوپر والے اس کے ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اس کو بھی اور اپنے آپ کو بھی(دریا میں ڈوبنے سے )بچالیں گے اور اگر انہوں نے اس کو(اس کے حال پر)چھوڑ دیا ،تو (نہی عن المنکر سے لا تعلقی کے باعث)وہ اُس کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے اور خود کو بھی ہلاک کردیں گے ، (بخاری:2686)‘‘۔
ہمارے ہاں تقسیمِ کار کردی گئی ہے،حق کی دعوت دینے والوں کا ایک طبقہ وہ ہے جنہوں نے اپنے لیے آسان راستہ چنا ہے کہ عبادات کی ترغیب دے کر انفرادی اصلاح کا فریضہ انجام دیا جائے اورخلافِ شرع نظام کو چیلنج نہ کیا جائے،یہ نظام چلانے والوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہے ، یہ کام غیر مسلم ممالک میں بھی ہورہا ہے اور معاشرے کے با اثر طبقات ایسے لوگوں کی تحسین کرتے ہیں کہ یہ کسی سے الجھتے نہیں ہیں، نظام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، بس بے ضرر انداز میں دعوتِ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، لہٰذا حسّاس اداروں میں بھی ان کے لیے گنجائش رکھی جاتی ہے ، کیونکہ ان کا شعار یہ ہے :
فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو خیر کی بات سن لے ،اس کی مہربانی اور جو نہ سنے ،اس کے لیے دعائے خیر کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں، دراصل مشکل کام ’’نھی عن المنَکر‘‘یعنی برائی سے روکنے کا ہے،قرآنِ کریم میں ایک جامع آیت میں فرمایا: ’’بے شک اللہ عدل واحسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور تمہیں بے حیائی ، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو، (النحل:90)‘‘۔
برائی سے روکنا حکمران ،بالادست ،مرفّہ الحال اور عیش پرست طبقات کو براہِ راست چیلنج کرنا ہے ، جو انھیں ہرگز پسند نہیں ہے اور اس کی مزاحمت کی جاتی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام بھی جب اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے تو اُن کی دعوتِ حق میں بھی سدِّراہ یہی طبقات بنے ، یہ حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علمبردار تھے،قرآن کریم نے انہیں ’’مُتْرَفِیْن‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے ۔اس سے مراد وہ آسودہ حال طبقات ہیںجو اپنی راحتوں اور عشرتوں سے دست بردار ہونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے اور آخری حد تک مزاحمت کرتے ہیں، ہر دور میں ان کی روش یہی رہی ہے،اس لیے دعوتِ حق کا یہ شعبہ نہایت مشکل ہے ، یہ عزیمت کا تقاضا کرتا ہے اور اہلِ عزیمت ہر دور میں کم رہے ہیں ۔رسالت مآب ﷺ کا پاکیزہ دور ہی ایسا تھا کہ اہلِ عزیمت صحابۂ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ کی دعوت کے نتیجے میں آپ کو نصیب ہوئی اور پھر اُسی جماعت نے انقلاب برپا کرنے میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا اور اپنے عہد میں دینِ حق اسلام کو غالب کردیا۔