امریکی سماج کی شکست وریخت…(حصہ اول)

ہمارے ہاں پولیٹیکل پولرائزیشن کی اصطلاح زیادہ رائج ہے، اس سے ہم سیاسی انتشار اورمعاشی عدمِ استحکام مراد لیتے ہیں، لیکن امریکہ سماجی شکست وریخت سے دوچار ہے۔ سماج کی داخلی تہوں میں یہ ارتعاش پہلے سے موجود تھا، لیکن ٹرمپ کا عہد صدارت اورگزشتہ دو صدارتی انتخابی مہمات اسے بالائی سطح پر لے آئیں۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس محض دو سیاسی جماعتیں نہیں ہیں، بلکہ ان میں نظریاتی تفاوت ہے، ریپبلکن قدامت پسند ہیں، کسی حد تک نسلی اورمذہبی تعصب بھی ان میں موجود ہے، اسقاطِ حمل اور LGBT گروپوں کو نوازنے کے خلاف ہیں، جبکہ ڈیموکریٹس سوشل الٹرا لبرل سیکولر ہیں۔ ٹرمپ نے ریپبلکن کے باغیانہ جذبات کو زبان دی، ان میں سفید فام نسلی عصبیت کو ابھارا اور2020ء کے صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود سات کروڑ بیالیس لاکھ ووٹ لیے، چنانچہ بائیڈن کی صدارتی فتح پر ٹرمپ کے ایک شیدائی نے ٹویٹ کیا: ’’ تمھیں75ملین لوگوں نے ردّ کیا ہے‘‘۔
عام طور پر نومنتخب صدر حلف اٹھانے کے بعد کانگریس اور اس کے توسط سے پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی معاشی پالیسی واضح کرتا ہے،داخلی اور خارجہ پالیسی کے اہم نکات پر روشنی ڈالتا ہے،اپنی ترجیحات کی بابت قوم کو بتاتا ہے،نائن الیون کے بعد افغانستان اور مڈل ایسٹ پالیسی ،نیٹو اتحادیوں سے تعلقات ، چین اورروس سے تنائو ، ایٹمی پھیلائو اور دہشت گردی وغیرہ کے بارے میں اپنی ترجیحات واضح کرتا ہے۔ لیکن حلف اٹھانے کے بعدکانگریس اور پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پہلے اسٹیٹ آف دایونین ایڈریس میں بائیڈن کوسارازور قومی وحدت، جمہوریت کی تقدیس، داخلی انتشاراورآئین کی بالادستی پر لگانا پڑا۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر شدت پسندی، انتہا پسندی ، دہشت گردی اورنفرت انگیزی کے فتوے لگتے رہے۔ہمیں تحمل وبرداشت ،رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی اور تکثیریت کے درس دیے جاتے رہے۔ تکثیریت سے مراد معاشرے میں لسانی ، نسلی ، مذہبی اور قومی تنوّع کو قبول کرنا اور اس کی گنجائش نکالنا ہے۔اپنی اقدار کے فروغ کے لیے اپنی پروردہ این جی اوز پر کروڑہا ڈالروں کی نوازشات کی جاتی رہیں، پاکستان کے دینی مدارس وجامعات ان کا مرکزی ہدف تھے، مگر ذرا غورکیجیے! بائیڈن نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’جن دشمنوں کا ہمیں سامنا ہے اور ان سے متحد ہوکر لڑنا ہے، وہ یہ ہیں: ’’غیظ وغضب،ناراضی، نفرت، انتہا پسندی ، لاقانونیت، تشدُّد ، بیماری، بے روزگاری اور مایوسی ومحرومی‘‘ ۔ اتحاد کے ذریعے ہم بڑے بڑے اور اہم کام کرسکتے ہیں، ہم بھٹکے ہوئوں کو راہِ راست پر لاسکتے ہیں، ہم لوگوں کو بہتر روزگار دے سکتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو محفوظ اسکولوں میں تعلیم دے سکتے ہیں، ہم مہلک وائرس پر قابو پاسکتے ہیں، ہم محنت کا اچھا پھل دے سکتے ہیں، ہم مڈل کلاس کی تعمیر نو کرسکتے ہیں اور سب کو بہتر صحت کی ضمانت دے سکتے ہیں، ہم مختلف النوع نسلوں کو انصاف دے سکتے ہیں اور ہم ایک بار پھر خیر کے فروغ کے لیے امریکہ کو دنیا کا قائد بناسکتے ہیں ‘‘۔
غور فرمائیں! جو فتوے ہم پر لگتے تھے ، جو خرابیاں اور ناکردہ گناہ ہمارے سر تھوپ دیے جاتے تھے، اب امریکی معاشرہ خود ان کی آگ میں جل رہا ہے، حالانکہ امریکیوں نے اپنے آپ کو پوِتر سمجھ رکھا تھااور خود کو حق وباطل کا معیار قرار دیتے تھے۔ بائیڈن نے داخلی تضادات اور تصادم کے بارے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا:
’’میں جانتا ہوں موجودہ ماحول میں قومی وحدت کی بات کرنا بعض لوگوں کے نزدیک ایک احمقانہ اور تخیلاتی بات ہوگی، مجھے اعتراف ہے کہ ہمیں تقسیم کرنے والی قوتیں نہایت گہری ہیں اور وہ ایک حقیقت ہیں، مگر میں یہ بھی جانتا ہوں وہ نئی نہیں ہیں، ہماری تاریخ امریکی آئیڈیل کے لیے مسلسل جدوجہد کا نام ہے کہ ہم سب برابر پیدا کیے گئے ہیں، سب سے ناپسندیدہ اوربدنما حقیقت نسل پرستی، قوم پرستی، خوف اورشیطنت ہے، جنہوں نے ہماری وحدت میں شگاف ڈالا ہے، یہ جنگ دائمی ہے اور فتح یقینی نہیں ہے‘‘۔
گویا بائیڈن یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امریکی سماج میں داخلی شکست وریخت اس حد تک نفوذ کر گئی ہے کہ بعض انتہا پسند لوگوں کے نزدیک قومی وحدت کی بات کرنا حماقت اور دیوانے کا خواب ہوگا، محض تخیل ہوگا ، حقیقت نہیں۔ بائیڈن تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ نسل پرستی ، قوم پرستی ،خوف اور ابلیس کی پیدا کردہ منافرت میں مبتلا ہے، امریکی وحدت میں شگاف پڑگیا ہے اور وہ اُسے پاٹنے اور پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بائیڈن نے مزید کہا:
’’آئیے! آج ہم اس وقت اسی مقام سے نئی شروعات کریں، آئیے! ہم ایک دوسرے کو سنیں، ایک دوسرے کو عزت دیں، ایک دوسرے سے ملیں، سیاست کامعنی یہ نہیں ہے کہ ہم نفرت کے شعلے بھڑکائیں، اس کی خاطر سب کچھ تباہ کرڈالیں، کسی بھی اختلاف رائے کا مطلب مکمل جنگ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسی تہذیب کو ردّ کردینا چاہیے جس میں حقائق میں ہیراپھیری کی جائے یا ناحق کو ملمع کاری سے حقیقت بناکر پیش کیا جائے‘‘۔ ان کلمات میں بھی یہ اعتراف ہے کہ امریکہ میں نفرت اور نسلی عصبیت اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سننے اور ایک دوسرے کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اختلاف رائے کو جنگ میں تبدیل کردیا گیا ہے، ہیرا پھیری کر کے حقائق کو بدل دیا گیا ہے، بائیڈن نے امریکی قوم کی مایوسی اور مورال کے گرنے کے متعلق کہا:
’’میں جانتا ہوں کہ بہت سارے امریکی ہم وطن مستقبل کو خوف اورشک وشبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مجھے پتا ہے وہ اپنی ملازمتوں کے حوالے سے اندیشوں کا شکار ہیں، وہ میرے والد کی طرح رات کو بستر پر لیٹ کر چھت کو تکتے ہیں اور سوچتے ہیں:’’ کیا میں اپنی صحت کا خیال رکھ سکوں گا، کیا میں اپنے گھر کی قسط ادا کرسکوں گا‘‘، وہ اپنے خاندانوں کے بارے میں فکر مند ہیں اور سوچتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے‘‘۔بائیڈن اپنی قوم کو مستقبل کی نوید سناتے ہیں، لیکن ان الفاظ سے امریکی قوم کے گرے ہوئے مورال اور ان پر مستقبل کے حوالے سے طاری خوف کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ انہوں نے کہا:
’’صدیوں پہلے میرے چرچ کے سینٹ آگسٹائن نے کہا: لوگ ایک ہجوم ہوتے ہیں، مشترکہ مقصد اور اس سے محبت انہیں جوڑتی ہے، ہمارے مشترکہ اہداف جن سے ہم امریکیوں کو محبت ہے، میرے نزدیک یہ ہیں: ’’مواقع کا حصول، سلامتی، آزادی، وقار، باہمی اکرام واحترام اور صداقت ، انہوں نے کہا:
’’برادرانِ وطن! یہ آزمائش کا وقت ہے ، ہماری جمہوریت اور صداقت پر حملہ کیا گیا ہے،یہ ایک نفرت انگیز وائرس ہے جو عدم مساوات کو پھیلارہا ہے، ایک منظّم نسل پرستی ہمیں ڈس رہی ہے،بحرانی ماحول ہے، دنیا میں امریکی کردار کو خطرہ ہے، ان خرابیوں میں سے ہر ایک ہمارے لیے ایک بھرپور چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں بیک وقت ان ساری خرابیوں کا سامنا ہے، ان مشکل حالات میں ہمیں اپنی قوم کوذمے داراورمرکزیت پسند بنانا ہے ، اب ہماری آزمائش ہونے جارہی ہے، کیا ہم سب مل کر بلندیوں کی جانب قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں، یہ جرأت دکھانے کا وقت ہے، ہمیں بہت کچھ کرنا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے، میں وعدہ کرتا ہوں :مجھے اورآپ کو جانچا جائے گا کہ ہم مل کر اپنے عہد کے اس ابھرتے ہوئے بحران کو کیسے حل کرتے ہیں‘‘۔
امریکہ کے نومنتخب صدر بائیڈن نے کانگریس اور قوم سے یہ خطاب 20جنوری2021کو اپناصدارتی حلف اٹھانے کے فوراًبعد ایک ایسے وقت میں کیا جب وائٹ ہائوس ،اوول آفس، کیپٹل ہل ،الغرض پورا دارالحکومت واشنگٹن سیکورٹی فورسز کے حصار میں تھا،حتیٰ کہ کانگریس کے اراکین کو کئی مراحل کی سیکورٹی سے گزرکرایوان میں جانا پڑا، سیکورٹی کو نادیدہ اور دیدہ خطرات لاحق تھے اور یہ امریکہ کی تاریخ میں ایک منفرد تجربہ تھا، امریکی مسلّح افواج اور نیشنل گارڈز کے بیس ہزار مسلّح جوان سیکورٹی ڈیوٹی پر مامور تھے، کیپیٹل ہل پر 6جنوری2021ء کے حملے نے امریکہ کو ہلاکر رکھ دیا تھا، وہ امریکہ جس نے اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی سلامتی کو لاحق موہوم خطرات سے نمٹنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر دور افغانستان ، شرقِ اوسط ، یورپ ، کوریا، سمندروں اور دور دراز مقامات پر اپنی افواج کو متعین کر رکھا ہے، اب اپنے دارالحکومت کے قلب میں ایوانِ صدر اور کانگریس کے ایوان اور دفاتر کو غیر محفوظ سمجھ رہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ توسیع پسندی کی خواہش نے امریکہ کو داخلی حقائق سے بے خبر کر رکھا تھا، 6جنوری کو ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے انہیں آئینہ دکھایا۔ اب معلوم ہوا کہ جن خرابیوں کا الزام واتّہام اور بہتان وہ دوسروں پر لگارہے تھے، وہ خود اُن کی صفوں میں پنپ رہی تھیں ، بائیڈن نے تسلیم کیا کہ وہ ایک حقیقت ہیں، ان کی جڑیں گہری ہیں ، وہ پوری قوم کے لیے ایک حقیقی چیلنج ہیں اور ان میں سے ایک ایک خرابی ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، مگر بائیڈن کے بقول لمحۂ موجود میں یہ تمام چیلنج یکجا ہوچکے ہیں۔
ماضی میں امریکی سی آئی اے مختلف ممالک میں مذہب ،زبان اور رنگ ونسل کی بنیاد پر قوموں کی عصبیتوں کو ابھار کر انتشار پیدا کرتی رہی ہے، حکومتوں کو گراتی رہی ہے ،من پسند لوگوں کو مسند اقتدار پر فائز کرنے کے لیے سازشوں کا جال بچھاتی رہی ہے، ایسٹ تیمور اور سوڈان میں یہی کچھ کیا گیا ہے، جو آگ وہ دوسروں کے گھروں کو بھسم کرنے کے لیے بھڑکاتے تھے، اب اس کے شعلے ان کے اپنے گھر میں بلند ہونے لگے ہیں، یہ مکافاتِ عمل ہے ، قانونِ فطرت ہے، ایک صورتِ تعزیر ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے:
تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ منگل کو امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک منظور ہوچکی ہے اور اب یہ کارروائی آگے چلے گی ، اس تحریک کے حق میں 56اورمخالفت میں44ووٹ آئے، یعنی 6 ریپبلکن سینیٹرزنے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا ہے، لیکن کیپیٹل ہل پر باغیانہ حملے کے باوجود 44ریپبلکن سینیٹرزنے اپنی جماعتی وابستگی کو قائم رکھا اور ٹرمپ کے مواخذے کے خلاف ووٹ دیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب امریکیوں کی ایک معتَدبہ تعداد کے نزدیک گروہی عصبیت آئین وقانون کی بالادستی پر فوقیت رکھتی ہے۔ (روزنامہ دنیا، 11فروری2021ء)

View : 604

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site is protected by reCAPTCHA and the Google Privacy Policy and Terms of Service apply.